Nowadays, you can imagine a place, where houses, educational - TopicsExpress



          

Nowadays, you can imagine a place, where houses, educational institutions and even banks are not any door, and unlocked the cash and jewelry are placed in the ark? Surely, you would think that the roberring was not possible at present to have such a peaceful place. The same land on which there is a village that any home, any door in the building and its inhabitants take quit sleep. Youll be surprised that this village in India is our neighbor! Located in the state of Maharashtra ranges from zero sngnapur Bay Village are all constructions. I will protect. Since then, the village from the coming out soon. Even public washrooms are without doors. The village women demand that the doors have been put on the screen door installation conflicts with their religious beliefs. Some villagers along the perimeter of the door hinges are large rafts, but it is only at night and because wild animals and stray dogs are entering into the house. If anyone wants to reach the front of the house knocking on the door to that name-calling is not available. Residents of the village deity belief that zero is the safety of their property. He claims that if someone stole something from here, then there, the night is still running. Zero followers of God believe also that the inhabitants of the village who would sin he half sati faces overshadowed the seven years it would be unfortunate. Sngnapur zero in front of the temple is a pamphlet distributed in the village an ideal village claims have been calling this place is free from such crimes, including theft kit. It is also mentioned in the pamphlet that professional thieves, bandits, robbers and become drunk Sharif here. The strange customs of the town living habit, even to marry the wives proves difficult in the beginning. Rupali Shah when he first discovered the laws of the door in a house in the village, he was surprised. Rupali says, two years ago when they found out after marriage zero sngnapur I was very nervous when I have to be. Because I was not used to living in a house door. When I married my husband and in-laws here and said to not lock any valuable thing I was surprised. But gradually got used to the environment and it does not bother me stay in his house. The village contains a population of five thousand nationwide fame in the 1990s, there was a documentary. After the films release large numbers of people to this unique village and reach to zero gods were worshiped. Now, forty thousand pilgrims who come here daily. Fifteen years ago, the villagers were dependent on sugarcane cultivation but the pilgrims who have become a major source of tourism revenue. According to local tradition for centuries sngnapur zero is free from all such crimes, theft here in the last few years there have been several incidents. According to local police officer Anil daughterinlaw crime rate here in the last two years there has not been any increase in the theft of vehicles around the temple, there were incidents of snatching and pocket cutting. After these incidents, some residents of the village decided to switch to the door. Thirty-year-old Ajay is also one of them. The village is located here because of religious beliefs United Commercial Bank branch entrance of the building is locked up. The money is placed in strong rooms. The bank manager said that they can not deviate from the local traditions can not be compromising on the security. Referring to the beliefs of some villagers say that the cause of crime is not transcendent powers of gods is not to be remote village. How incidents where there will not be any coming. The arrival of the pilgrims, some people also say that the most important source of income for the village people. The concept of the village was shattered by crime, then no one will come here and will become the largest source of income. That will stand the idea here is to keep the doors of the houses had not yet been uardatunky. A senior police official confirmed that the accused also said that the people of the village, but the pressure of his written report. (In Urdu Language) آج کے دور میں کیا آپ کسی ایسی جگہ کا تصور کرسکتے ہیں، جہاں مکانات، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ بینکوں میں بھی کوئی دروازہ نہ ہو، اور جہاں نقدی اور زیورات غیرمقفل صندوق میں رکھے جاتے ہوں؟ یقیناً، آپ یہی سوچیں گے کہ لُوٹ مار کے موجودہ زمانے میں ایسی پُرامن جگہ کا ہونا ممکن نہیں۔ پر جناب اسی روئے زمین پر ایسا ایک گاؤں موجود ہے جس کے کسی بھی گھر، کسی بھی عمارت میں کوئی دروازہ نہیں اور یہاں کے باسی چین کی نیند سوتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ گاؤں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہے! ریاست مہاراشٹر کی حدود میں واقع شنی شنگناپور نامی گاؤں کی سبھی تعمیرات بے دَر ہیں۔ داخلی دروازے نصب کرنے سے گریز کا سبب مقامی ہندو آبادی کا مذہبی عقیدہ ہے جس کے مطابق صدیوں پہلے دیوتا، شنی مہاراج نے گاؤں کے مُکھیا کو خواب میں درشن دیے اور حکم دیا کہ کسی بھی گھر میں دروازہ نہ لگایا جائے کیوں کہ میں خود گاؤں کی حفاظت کروں گا۔ اس کے بعد سے یہ گاؤں ’ بے دَر ‘ ہی چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ عوامی بیت الخلاء بھی دروازے سے محروم ہیں۔ تاہم گاؤں کی عورتوں کے مطالبے پر دروازوں پر پردے ڈال دیے گئے ہیں کیوں کہ دروازے کی تنصیب ان کے مذہبی عقیدے سے متصادم ہے۔ کچھ دیہاتی دروازے کے فریم کے ساتھ بڑے بڑے تختے ٹکا دیتے ہیں مگر ایسا صرف رات کے وقت کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھی جنگلی جانوروں اور آوارہ کتوں کو گھر میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ کوئی کسی سے ملنے کا خواہاں ہو تو اس کے گھر کے سامنے پہنچ کر نام پکارتا ہے کیوں کہ کھٹکھٹانے کے لیے دروازہ موجود نہیں ہوتا۔ گاؤں کے باسیوں کا عقیدہ ہے کہ شنی دیوتا ان کی املاک کی حفاظت کرتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر کوئی یہاں سے کچھ چُرا کر لے جاتا ہے تو ساری رات چلنے کے باوجود بھی صبح یہیں موجود ہوتا ہے۔ شنی دیوتا کے پیروکار اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ گاؤں کا جو بھی باسی گناہ کرے گا وہ ’ ساڑھ ستی‘ کا شکار ہوجائے گا یعنی ساڑھے سات برس تک بدقسمتی اس پر سایہ فگن رہے گی۔ شنی شنگناپور کے مندر کے سامنے ایک پمفلٹ تقسیم کیا جاتا ہے جس میں اس گاؤں کو ایک ’ مثالی گاؤں ‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے یہ جگہ چوری چکاری سمیت ہر طرح کے جرائم سے پاک ہے۔ پمفلٹ میں یہ بھی درج ہے کہ پیشہ ور چور، ڈاکو، لٹیرے اور شرابی یہاں آکر شریف بن جاتے ہیں۔ قصبے کے عجیب و غریب رواجوں کے مطابق رہن سہن کی عادت ڈالنا، یہاں بیاہ کر آنے والی بہوؤں کے لیے ابتدا میں خاصا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ روپالی شاہ کو جب پہلی بار پتا چلا کہ اس کے ہونے والے سسرالی گاؤں کے کسی گھر میں دروازہ نہیں ہے تو وہ بڑی حیران ہوئی تھی۔ روپالی کا کہنا ہے،’’ دو سال پہلے جب معلوم ہوا کہ شادی کے بعد مجھے شنی شنگناپور میں رہنا ہوگا تو میں بہت پریشان ہوگئی تھی۔ کیوں کہ میں بنا دروازے والے گھر میں رہنے کی عادی نہیں تھی۔ جب میں بیاہ کر یہاں آئی اور میرے شوہر اور سسرال والوں نے کہا کہ کسی بھی قیمتی چیز کو تالا لگا کر نہیں رکھنا تو میں حیران رہ گئی۔ مگر رفتہ رفتہ میں اس ماحول کی عادی ہوگئی اور اب مجھے اپنے گھر میں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘ پانچ ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کو ملک گیر شہرت 1990ء کی دہائی میں ایک دستاویزی فلم سے ملی تھی۔ فلم کی ریلیز کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد اس منفرد گاؤں کو دیکھنے اور شنی دیوتا کی پوجا کرنے کے لیے پہنچنے لگی۔ اب روزانہ یہاں چالیس ہزار یاتری آتے ہیں۔ پندرہ برس قبل گاؤں کے باشندوں کا انحصار گنے کی کاشت پر ہوتا تھا مگر اب یاتریوں کی صورت میں آنے والے سیاح ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق شنی شنگناپور صدیوں سے ہر طرح کے جرائم سے پاک رہا ہے، تاہم پچھلے چند برسوں میں یہاں چوری کی کئی وارداتیں ہوئی ہیں۔ مقامی پولیس افسر انیل بہرانی کے مطابق گذشتہ دو سال کے عرصے میں یہاں جرائم کی شرح میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا لیکن مندر کے اطراف گاڑیوں کی چوری، جیب کاٹنے اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں ضرور ہوئی ہیں۔ ان وارداتوں کے بعد گاؤں کے کچھ باسیوں نے دروازے لگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تیس سالہ اجے بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ اجے کا کہنا ہے کہ اسے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں گاؤں والوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اہل خانہ کے تحفظ کے لیے وہ یہ اقدام کرنے پر مجبور ہے۔ گاؤں کے مذہبی عقائد کی وجہ سے یہاں واقع یونائیٹڈ کمرشل بینک کی شاخ کی عمارت کا داخلی دروازہ بنا قفل کا ہے۔ البتہ رقم اسٹرانگ رومز میں رکھی جاتی ہے۔ بینک مینیجر کاکہنا ہے کہ وہ مقامی روایات سے انحراف نہیں کرسکتے تاہم سیکیورٹی پر بھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ گاؤں والوں کے عقائد پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں جرائم نہ ہونے کا سبب دیوتا کی ماورائی طاقتیں نہیں بلکہ گاؤں کا دورافتادہ ہونا ہے۔ جہاں کوئی آتا جاتا نہیں وہاں وارداتیں کیسے ہوں گی۔ دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یاتریوں کی آمد گاؤں کے لوگوں کی آمدنی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اگر گاؤں کے جرائم سے پاک ہونے کا تصور بکھر گیا تو پھر یہاں کوئی نہیں آئے گا اور آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ چناں چہ اس تصور کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں وارداتوںکے باوجود گھروں میں دروازے نہیں لگائے جاتے۔ اس بات کی تصدیق ایک سینیئر پولیس اہل کار نے بھی کی جس کاکہنا تھا کہ وارداتیں ہوتی ہیں مگر گاؤں کے لوگوں کے دباؤ پر ان کی رپورٹ نہیں لکھی جاتی۔
Posted on: Tue, 27 Jan 2015 15:16:22 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015