بازیافت۔۔۔۔؟ ایک اقتباس - TopicsExpress



          

بازیافت۔۔۔۔؟ ایک اقتباس ۔۔۔۔ سردیوں کی ایک رات مَیں اپنے کمپیوٹر پر بیٹھا کہانی لکھ رہا تھا کہ میرے منجھلے بیٹھے علی سکندر کی شرارت بھری گھٹی گھٹی سی چیخ سنائی دی۔ اگلے ہی لمحے بیٹھک اور ساتھ والے کمرے کا درمیانی دروازے دھڑل سے کھلا۔ میں نے گھوم کے دیکھا، دروازے میں سے علی سکندر تیزی سے نکل رہا تھا۔ دو ہی قدموں میں وہ میرے پاس رکھی ہوئی کرسی پر چھپاک سے آن بیٹھا اور پھر اپنی بے ترتیب سانسوں کو گہری مسکراہٹ کے پردے میں چھپانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔ اُس کے چہرے، آنکھوں اور بوٹی بوٹی سے شرارت پھوٹ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تو یہ بات ہے ، جناب کسی سے چھیڑ خانی کرنے کے بعد باپ کی پناہ میں آئے ہیں! اپنی توجہ کے منتشر ہونے پر ظاہر ہے میں چیں بجبیں تو ہوا لیکن بچوں کی شرارتیں مجھے بہت محظوظ کرتی ہیں سو میں سکندر کی طرف دیکھ کے مسکرا دیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اُس کے دونوں گال آپس میں پچکا دیے اور پھر دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے اب مدعی کا انتظار تھا۔ دیکھیئے کون ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوب، تو یہ دانش میاں ہیں! ’’آ جایئے بیٹا، آ جایئے۔۔۔۔ آپ بھی آ جایئے۔۔۔۔ یہ سب کیا چل رہا ہے بھئی؟‘‘ علی دانش نے جھجکتے ہوئے دروازے میں سے جھانکا تو میں نے ہنستے ہوئے اُسے اندر بلا لیا۔ علی دانش، علی سکندر سے ڈھائی سال بڑا ہے اور نویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ ’’بابا اپنے لاڈلے کو سمجھا لیں یہ مجھے پہلے تنگ کرتا ہے۔ مجھے مار کے آپ کے پاس آگیا ہے!‘‘ میرے بلانے پر دانش نے جھجکتے ہوئے اندر آکر کہا۔ ’’ہاں بھئی سکندر بیٹا میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ بڑے بھائی کو پہلے تنگ نہ کیا کریں۔ پہلے تنگ کرنے کا حق صرف بڑے بھائی کا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے پیار سے سکندر کے گال پر چٹکی بھری۔ ’’Im very serious بابا!‘‘ دانش نے میرے مذاق سے چڑتے ہوئے کہا۔ ’’Just grow up دانش بیٹا!‘‘ آپ بڑے ہیں آپ کا رویہ بھی بڑوں والا ہونا چاہیئے۔ پھر یہ بھی تو دیکھیئے آپ نویں جماعت میں پڑھتے ہیں اور یہ ابھی صرف چھٹی میں۔ آپ کی اور اس کی سوچ میں واضح فرق ہونا چاہئے۔ آپ کا اور سکندر کا کیا مقابلہ ہے بھلا! ’’اس کا قد بھی تو میرے جتنا ہی ہے۔۔۔۔ جوتے مجھ سے بڑے آتے ہیں۔۔۔۔ اسے ایسے ہی چھوٹا بننے کا شوق رہتا ہے!‘‘ دانش نے ذہنی بلوغت کے لیے پیش کئے گئے میرے بڑی چھوٹی جماعتوں والے بُودے فلسفے کو ماننے سے یکسرَ انکار کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بھئی بتاہرُو (اونٹ کا بچہ۔ سکندر کے غیر معمولی قد کاٹھ کی وجہ سے گھر میں سبھی اُسے پیار سے بتاہرُو کہتے ہیں)، آپ کے بھائی کی بات ویسے ہے تو درست! آپ اونٹ کی دُم چومنے جتنے ہو گئے ہیں اور ابھی تک چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھتے رہتے ہیں۔‘‘ دانش کی تسلی کے لیے میں نے سکندر کو تھوڑے تیکھے لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’بابا آپ کو نہیں پتہ یہ دانش بھائی مجھے ہر وقت چڑاتے رہتے ہیں۔‘‘ ’’بیٹا جب آپ کو یہ پتہ ہی ہے کہ دانش بھائی آپ کو چڑانے کے لیے چھیڑتے ہیں تو آپ نہ چڑا کریں نا بھئی۔۔۔۔ ویسے آپ کو ہر وقت چڑاتے کیا ہیں یہ؟‘‘ ’’بابا، بھائی مجھے تِلکندھا کہتے ہیں۔‘‘ ’’ تِلکندھا!۔۔۔۔ ہائیں! بھئی یہ کیا بلا ہے؟‘‘ یہ عجیب سا لفظ سن کے میں ہنسنے سے باز نہ رہ سکا۔ ’’میرے دائیں کندھے پر تل جو ہے اس کی وجہ سے بھائی نے میری چھیڑ بنائی ہوئی اور یہ مجھے ہر وقت اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘‘ میرے ہنسنے پر سکندر نے کسی قدر منہہ بسورتے ہوئے کہا۔ مجھے اپنی کہانی مکمل کرنا تھی مگر بچوں کی شکائتیں تھیں کہ شیطان کی آنت ہوئی جا رہی تھیں۔ میں نے کچھ سمجھانے بجھانے کے بعد دونوں کی زبردستی صلح کروا دی اور مزید لڑائی کے اندیشے کے پیش نظر دونوں کو پاس ہی بٹھا لیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ ’’بابا آپ سے ایک بات پوچھوں؟‘‘ کچھ دیر بعد دانش نے مسلسل خاموش بیٹھے رہنے سے اکتا کر کہا۔ ’’جی بالکل پوچھیئے بیٹا۔ پوچھیں گے نہیں تو جانیں گے کیسے؟‘‘ ’’آپ کہانیاں کیوں لکھتے ہیں؟‘‘ ’’۔۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ آں۔۔۔۔۔ کہانیاں کیوں لکھتا ہوں۔۔۔۔ کیوں لکھتا ہوں۔۔۔ بھئی بیٹا میرے پاس اس بات کا کوئی خاص جواب نہیں ہے، لیکن نفیسات دان کہتے ہیں کہ کہانیاں لکھنے پڑھنے والے، مصّور، موسیقار، فلم میکرز اور دیگر فنکار اور ان تمام فنون کو سراہنے والوں کی شخصیت میں بہت سی نفسانی کمزوریاں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے یہ لوگ ان چیزوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کے لیے یہ چیزیں عملی زندگی سے فرار کا ایک طریقہ ہے۔ اور حضرت فرائڈ جو کہ ایک مشہور عالم نفسیات ہیں، فرماتے ہیں کہ فن اور ادب ایسے خیالات سے پیدا ہوتا ہے جس میں فنکار اپنی محرومیوں کا حل تلاش کرتا ہے۔ وہ آرٹ کو ایک قسم کا نشہ کہتے ہیں جو لوگوں کو زندگی کی کڑوی حقیقتوں سے فرار کا سامان مہیا کرتا ہے۔۔۔۔ یعنی یہ چیزیں عملی زندگی سے فرار کا ایک آسان نسخہ ہیں۔۔۔۔۔ بس نشہ کرو اور سب غم بھول جاؤ! مطلب یہ کہ یہ ایک انتہائی فضول کام ہے۔‘‘ میں نے بات اُڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔ ’’اگر یہ ایسا ہی فضول کام ہے تو پھر آپ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ ’’بیٹا ابھی آپ کو سب کچھ بتایا تو ہے۔ ظاہر ہے میرے لکھنے کی وجہ بھی انھیں میں سے کوئی نہ کوئی ہو گی۔ اب فرائیڈ جیسے بڑے عالم کوئی بات کریں تو بھلا میری کیا مجال ہے کہ اُن کی بات کو جھٹلا سکوں! ‘‘ میرا جواب سُن کے دانش عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ ’’بابا یہ نفسیات دان کون ہوتے ہیں؟‘‘ سکندر نے سوال اُٹھا۔ ’’بیٹا یوں سمجھیں کہ یہ لوگ سپر مین ٹائپ کے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ لوگوں کی باتوں، اُن کی عادات اور نشت و برخاست سے اُن کی شخصیت کی خامیوں کا اندازہ کرتے ہیں۔۔۔۔ خامیاں ڈھونڈنے کا یہ کام وہ نہ صرف زندہ لوگوں پر کرتے ہیں بلکہ مرے ہوئے مشہور لوگ بھی بیچارے ان کے تجزیئے سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہاہاہا۔‘‘ ’’بابا مجھے آپ کی باتیں ذرا سی بھی سمجھ نہیں آئیں!‘‘ سکندر اپنے چہرے پر ہزاروں کھڈے اور بل ڈالتے ہوئے منمنایا۔ ’’لیکن دانش بھائی کو میری بات ضرور سمجھ آ گئی ہو گی۔۔۔۔ ہے نا دانش بیٹا!‘‘ میں نے دانش کا ہاتھ دبا کر مسکراتے ہوئے کہا۔ میری بات سن کر دانش نے نظر کے چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں سکیڑتے ہوئے ناک چڑھائی اور ہاتھ سے چشمے کو تھام کر اپنی شرمندگی اس کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’وہ بابا مجھے بھی آپ کی بات تھوڑی تھوڑی سی ہی سمجھ آئی ہے ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ سمجھ تو آ گئی ہے لیکن ایک دو جگہ سے سمجھ نہیں آئی۔‘‘ اور پھر شرمندہ سا مسکرانے لگا۔ ’’اوہ سوری بیٹا! میں شائید اپنی ہی دھن میں کچھ کہہ گیا ہوں۔ چلیئے کوئی بات نہیں! آپ کو پھر کبھی اچھی طرح سمجھا دوں گا۔‘‘ ’’بابا آپ ہمیں تو اپنی کوئی کہانی کبھی نہیں پڑھاتے۔ بس خود ہی لکھتے رہتے ہیں!‘‘ ’’بیٹا یہ کہانیاں بڑوں کے لیے ہوتی ہیں۔ ابھی آپ کی عمر کم ہے۔ ابھی آپ کو ایسی کہانیوں کی سمجھ نہیں آئے گی۔‘‘ میں نے دانش کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو بابا پھر آپ کوئی بچوں کی کہانیاں بھی لکھا کریں نا جو ہم بھی پڑھ سکیں۔‘‘ سکندر نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے پوچھا۔ ’’بیٹا میں بچوں کی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔‘‘ ’’وہ کیوں بابا؟‘‘ ’’بیٹا بچوں کی کہانیاں لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور مجھ سے کوئی مشکل کام نہیں کیا جاتا بھئی!‘‘ ’’بچوں کی کہانیوں اور بڑوں کی کہانیوں میں فرق ہوتا ہے بابا؟‘‘ ’’جی بیٹا بالکل فرق ہوتا ہے۔ بچوں کی کہانیاں سادہ سی ہوتی ہیں اور اُن کے آخر میں کوئی نہ کوئی moral ہوتا ہے۔‘‘ ’’بڑوں کی کہانیوں میں کوئی moral نہیں ہوتا بابا؟‘‘ سکندر کے سوال نے مجھے ایک دم گڑبڑا دیا۔ ’’کیا بڑوں کو morals پسند نہیں ہوتے؟‘‘ اُس نے مزید سوال داغ دیا۔ میں اُسے مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواب گھڑنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ دانش بیچ میں کود پڑا: ’’تم تو ہر وقت ہی بونگی شونگی باتیں کرتے رہتے ہو۔ بڑوں کا لٹریچر اور طرح کا ہوتا ہے اور اُسے سمجھنے کے لیے زیادہ عقل اور سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے سلیبس میں بھی ایسی کئی کہانیاں ہیں۔‘‘ ’’ہونہہ! تمھیں کونسا وہ کہانیاں سمجھ آتی ہونگی۔ بڑے آئے عقل مند!‘‘ سکندر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ’’آہاں۔۔۔۔ بری بات بیٹا! آپ لوگوں نے پھر الجھنا شروع کر دیا ہے۔ پلیز چپ ہو جائیں اور مجھے۔۔۔۔‘‘ ’’بابا آپ بچپن میں کہانیاں سنتے تھے؟‘‘ سکندر نے بھولی سی صورت بتائے ہوئے کرسی پر ادھر اُدھر جھولتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں بیٹا، کیوں نہیں!۔۔۔۔ میں اپنی نانی جان اور دو بڑی خالاؤں سے بہت کہانیاں سنا کرتا تھا۔‘‘ ’’بابا پلیز ہمیں بھی آج اپنے بچپن کی کوئی کہانی سنائیں نا۔۔۔۔ آپ نے ہمیں کبھی بھی کوئی کہانی نہیں سنائی۔‘‘ ’’بیٹا مجھے اپنے بچپن کی کوئی کہانی اب یاد نہیں ہے۔۔۔۔ بس دو تین کہانیوں کے صرف نام ہی یاد ہیں۔‘‘ ’’عجیب بات ہے ویسے بابا!۔۔۔۔ آپ کو کوئی کہانی یاد نہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟‘‘ دانش نے بہت حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہو جاتا ہے میری جان، ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو سب کچھ ہی بھول جاتا ہے سوائے چند ایک باتوں کے۔‘‘ ’’میں سمجھا آپ اپنی کہانی جو لکھ رہے ہیں تو شائید ہمیں ٹرخانے کو ایسا کہہ رہے ہوں۔‘‘ ’’نہیں بیٹا میں بھلا آپ کو کیوں ٹرخانے لگا!‘‘ ’’بابا چلو اپنے بچپن کی نہ سہی ہمارے مطلب کی کوئی کہانی تو آتی ہی ہو گی نا ویسے آپ کو۔ کوئی ایسی ہی کہانی آج ہمیں سنا دیں۔‘‘ ’’ہاںںں، ایک دفعہ ایک کارٹون فلم دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔‘‘ کسی کارٹون فلم کے مجھے یاد ہونے کی بات پر سکندر کا چہرہ اچانک کھِل گیا۔ ’’بابا کارٹون فلم، ہاہاہاہا۔۔۔۔ وہ فلم کیسے یاد رہ گیا آپ کو؟‘‘ دانش نے انتہائی حیران ہو کر پوچھا۔ شائید اُس کے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ کبھی میں بھی کارٹون فلم دیکھا کرتا تھا۔ ’’بیٹا وہ کارٹون فلم تو ظاہر ہے بچوں کا ہی تھا اور ایسے فلمز بچوں کو entertain کرنے کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن اُس فلم میں کچھ پہلو ایسے تھے۔۔۔۔ کچھ بہت گہری باتیں تھیں۔۔۔۔ جنہوں نے مجھے وہ کہانی کبھی بھی بھولنے نہیں دی!‘‘ ’’پلیز پلیز بابا ہمیں آج وہی کہانی سنا دیں نا!‘‘ سکندر نے مجھے یا دانش کو مزید بات کرنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔ ’’ہاں بیٹا ضرور سناؤں گا۔۔۔۔ لیکن آج نہیں کل سناؤں گا۔۔۔۔ آج تو مجھے اپنی یہ کہانی مکمل کرنا ہے۔ میری کہانی ایک بہت اہم موڑ پر پہنچی چکی ہے اور مجھے اسے آج ہی مکمل کرنا ہے۔‘‘ ’’نہیں بابا آج ہی سنائیں نا پلیز!‘‘ سکندر میری بات کو قطعاََ نظر انداز کرتے ہوئے ضد پر اُتر آیا۔ میرا یہ بیٹا بہت سیدھے مزاج کا ہے۔ اور اپنے اسی سیدھے پن میں اپنی ضد پر بھی اڑ جاتا ہے۔۔۔۔ ہاں کرنا ہی پڑی۔ مجھے کہانی سنانے پر آمادہ دیکھ کر وہ خوشی سے نعرے لگاتا اُٹھا اور اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کو بلانے کے لیے دوڑا۔ تھوڑی دیر بعد چاروں میرے گرد جمع تھے۔ کہانی سننے کا اشتیاق اُن کی آنکھیں اور چہرے سے بے پناہ خوشی کی صورت جھلک رہا تھا۔ محمد نعیم دیپالپور۔۔
Posted on: Tue, 12 Nov 2013 14:59:06 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015