جب تم عمر رسیدہ ہوجاؤ یہ ریشم کے لچھوں جیسے بال اس طرح چمکنے لگیں جیسے چاندی کے تار یہ حسین نشیلی آنکھیں دھندھلی پڑ جائیں اس چاند سی پیشانی پر وقت جھریاں ڈال دے تب سوچنا کہ تمہاری آنکھوں میں کبھی کتنی ملائمت تھی کتنا سحر تھا سنہرے بالوں کی پریشان لٹیں تمہارے دمکتے ہوۓ چہرے پر کتنی اچھی لگتی تھیں تمہاری مسکراہٹ کتنی دلفریب تھی تم کتنی خوبصورت تھیں تم فرشتوں کا تخیل تھیں . حوروں کا خواب تھیں اس وقت ایک بدنصیب کو بھی یاد کرنا جو تمہارا پرستار تھا جو تمہارا نام لے لے کر جیتا رہا جس نے اس حسین مجسمے کی حسین روح کو چاہا کتنے خوشگوار تھے وہ لمحے جو اس نے تمہارے پاس گزارے پھر یاد کرنا کہ محبّت کتنی حسین چیز تھی جو افق کے اس طرف طلوع ھی جس سے زمین و آسمان جگمگا اٹھے اور پھر افق کے اس پار چلی گئی اور تاروں کے کسی جھرمٹ میں اپنا منہ چھپا لیا شفیق الرحمن------------ When You Are Old When you are old and grey and full of sleep, And nodding by the fire, take down this book, And slowly read, and dream of the soft look Your eyes had once, and of their shadows deep; How many loved your moments of glad grace, And loved your beauty with love false or true, But one man loved the pilgrim soul in you, And loved the sorrows of your changing face; And bending down beside the glowing bars, Murmur, a little sadly, how Love fled And paced upon the mountains overhead And hid his face amid a crowd of stars. By William Butler Yeats
Posted on: Sat, 09 Nov 2013 09:37:05 +0000