سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے - TopicsExpress



          

سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے ، کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمتِ شب سے ، تو کہیں‌ بہتر تھا اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ، ورنہ ہم بھی پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا تم فرازؔ! اپنی طرف سے تو ، نبھاتے جاتے
Posted on: Sun, 25 Aug 2013 17:55:51 +0000

© 2015