میرے ہمنوا تیری بے رخی دل مبتلا کی شکست ہے اسے کس طرح میں کہوں فتح یہ میری انا کی شکست ہے تو چلا گیا مجھے چھوڑ تو صدائیں پھر بھی تجھی کو دیں میرے ہمسفر تو رکا نہیں، یہ میری صدا کی شکست ہے تجھے لا کے دل میں بٹھا دیا، تجھے راز ہر اک بتا دیا تو نے پھر بھی کوئی وفا نہ کی، یہ میری وفا کی شکست ہے میں چراغ کہنہ مزاج تھا، تجھے بجلیوں کی طلب رہی مجھے آندھیوں نے بجھا دیا، یہ میری ضیاء کی شکست ہے مجھے اس طرح نہ ستاوء گے مجھے زُعم تھا کہ نہ جاوء گے میرا غلط وہم و گمان ہی ، میری انتہا کی شکست ہے مجھے کوئی تجھ سے گلا نہیں، تو ملا تھا کب? کہ بچھڑ گیا میرے جرم کی ہے یہی سزا، یہ میری وفا کی شکست ہے وہ علیم ہے وہ بصیر ہے ، وہ مجیب الدعوات ہے مگر میری ایک بھی نہ سنی گئی، یہ میری دعا کی شکست ہے میری خامشی کے بیان کو، تو سمجھ کے بھی نہ سمجھ سکا میرے آنسئو ں کاپیام ہی دل بے نوا کی شکست ہے غم داستان حیات کے سبھی تذکرے ہوئے رائیگاں مرے نامہ بر، تیری ہر خبر میری ہر ادا کی شکست ہے مجھے رزمگاہ حیات میں ، یوں کبھی نہ کوئی گرا سکا تیری خامشی کی پکار ہی ، میری ابتدا کی شکست ہے میری جاں ‘مصدق‘ خموش رہ، بھلا زور کس کا ہواوءں پر کہ جہاں بھی رخ یہ بدل گئیں، وہیں ناخدا کی شکست ہے مصدق حسین
Posted on: Sun, 27 Oct 2013 18:05:37 +0000
Trending Topics
Recently Viewed Topics
© 2015