پاک امریکہ مشترکہ اعلامیہ اور اصل - TopicsExpress



          

پاک امریکہ مشترکہ اعلامیہ اور اصل حقائق کالم نگار | قیوم نظامی سپر پاور امریکہ کی ڈپلومیسی اس لحاظ سے کامیاب رہی ہے کہ اس نے کبھی تحریری طور پر ایسی یقین دہانی نہیں کرائی جس سے مستقبل میں اس کے قومی مفادات متاثر ہوسکتے ہوں۔ امریکہ کے دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدات ،مشترکہ بیانات اور اعلامیے مبہم ہوتے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو جیسے تحریری معاہدے کرکے یہ باور کرلیا کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا مگر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران فوجی حکمران امریکہ کا یہ جواز سن کر حیران رہ گئے کہ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کے مطابق امریکہ پاکستان کی مدد کرنے کا اس وقت پابند ہے جب کوئی کیمونسٹ ملک پاکستان پر حملہ آور ہو۔ صدر اوبامہ اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کے بعد جو سرکاری اور تحریری مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے وہ روایتی سفارتی لفاظی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ امریکہ کی عیاری ملاحظہ فرمائیے کہ مشترکہ اعلامیے کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے۔ That an enduring partnership between United States and Pakistan was based on the principles of respect for sovereignty and territorial integrity. ترجمہ:۔”امریکہ اور پاکستان کے درمیان دباﺅ برداشت کرنے والی شراکت ان اصولوں پر قائم ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کا احترام کرتے ہیں“۔ مشترکہ اعلامیے کا آغاز ہی سفید جھوٹ سے کیا گیا ہے۔ امریکہ پاکستان کے علاقوں پر ڈرون حملے کرکے مسلسل پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ڈرون حملوں کو خودمختاری کے منافی قراردیا ہے۔ امریکہ نے ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن کرکے اور سلالہ چوکی پر حملہ کرکے کھلی اور ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا مگر پاکستان کے مقتدر حکمرانوں نے اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے قومی بے حمیتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاک امریکہ تعلقات کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو خودمختار ملک نہیں سمجھتا۔ وزیراعظم پاکستان ڈرون حملوں کا ڈھول تو پیٹ رہے ہیں مگر مشترکہ اعلامیے میں ڈرون کا ذکر ہی موجود نہیں ہے حالانکہ امریکی اہلکار نے پریس بریفنگ میں تسلیم کیا کہ وزیراعظم پاکستان نے صدر اوبامہ سے ملاقات میں ڈرون کا مسئلہ اُٹھایا۔ عالمی دباﺅ کے باوجود منتخب حکمران ڈرون حملے بند کرانے کے اہل نہیں ہیں تو وہ عوامی مینڈیٹ کا مذاق اُڑانے کی بجائے مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو پر امن، جمہوری اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتا ہے مگر عملی طور پر وہ سینکڑوں وعدوں کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرانا چاہتا اور نہ ہی بھارت اور افغانستان کی پاکستان کے اندر مداخلت ختم کرانے کے لیے ٹھوس کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ وزیراعظم نے ملاقات کے دوران کشمیر کا مسئلہ اُٹھایا مگر وزارت خارجہ اور نیشنل سکیورٹی کے نا اہل اور امریکہ نواز منصب دار کشمیر کا ذکر مشترکہ اعلامیے میں شامل نہ کراسکے۔ امریکہ ایک بار پھر بھارت کو خوش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے والوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے جانشین قومی غیرت کو اس حد تک نیچے گرادیں گے کہ ایٹمی صلاحیت ہی زیرو ہوکر رہ جائے گی۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق قانون کی عملداری، دہشت گردی کے مقابلے معیشت، انرجی، سکیورٹی، علاقائی استحکام، ایٹمی عدم پھیلاﺅ اور دفاع کے بارے میں پانچ مشاورتی گروپ تشکیل دئیے جائیں گے۔ مارچ 2014ءواشنگٹن میں امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ کیری کے ساتھ وزارتی سطح کا سٹریٹجک اجلاس ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان سے انخلاءکا عمل شروع کرچکی ہوں گی۔ مشترکہ اعلامیے میں امریکہ کے انرجی تعاون کو سراہا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ صدر اوبامہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عسکری اور سویلین افراد کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ البتہ اعلامیے میں پاکستان کے اربوں ڈالر کے نقصان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مشترکہ اعلامیہ اگر یکطرفہ نہیں ہے تو اس کا واضح جھکاﺅ امریکہ کی جانب ہے۔ اے پی سی کی متفقہ قرارداد پوری پاکستانی قوم کی آواز تھی۔ امریکہ نے نجی طور پر طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں تعاون کا وعدہ کیا ہے مگر مشترکہ اعلامیے میں یہ الفاظ شامل کرنے سے گریز کیا کہ پاکستان علاقائی امن کے لیے جو کوشش کرے گا امریکہ ان کوششوں کا احترام کرےگا۔ امریکی صدر نے بھارت کی وکالت کرتے ہوئے ملاقات کے دوران ممبئی حملوں، جماعت الدعوة اور حافظ محمد سعید کا مسئلہ اُٹھایا حالانکہ اس مسئلے کا امریکہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکی اہلکار کی بریفنگ کے مطابق وزیراعظم نے اوبامہ سے ملاقات میں افغانستان سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے اندر بھارتی اور افغان مداخلت کے شواہد پیش کیے مگر مشترکہ اعلامیے میں اس کا ذکر بھی نہیں ہے۔ بااعتماد ذرائع کے مطابق پاکستان کے اہم نوعیت کے قومی مسائل کا فیصلہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کررہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا دورہ اس لحاظ سے کامیاب رہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا مو¿قف کھل کر بیان کیا ہے اور پاکستان کا امریکہ سے ٹوٹا ہوا سٹریٹجک رشتہ پھر بحال ہوگیا۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور امریکی میڈیا نے وزیراعظم پاکستان کے دورے کو مثبت اور تعمیری قراردیا ہے۔ 2014ءپاکستان کے لیے بڑا اہم ہے جس کی تیاری کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو امریکی دورے کے بعد پاکستان کی سفارتی کمزوریوں کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ وہ قومی سلامتی کے لیے خصوصی سیل تشکیل دیں جس میں پاکستان سے محبت کرنے والے اہل اور تجربہ کار سابق سفارتکاروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو شامل کیا جائے جو ہر پندرہ روز کے بعد وزیراعظم پاکستان سے میٹنگ کریں تاکہ 2014ءکے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔
Posted on: Mon, 28 Oct 2013 16:36:28 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015