کیا قحط ہمارا مقدر بن چکا ہے کالم - TopicsExpress



          

کیا قحط ہمارا مقدر بن چکا ہے کالم نگار | معین باری ....فیصل آباد کسی مؤرخ یا تاریخ کے طالب علم نے لکھا یا پڑھا کہ کبھی کسی شہنشاہ‘ بادشاہ یا سردار نے اپنے ملک کے دریاؤں کا سودا کیا ہو؟ مانجھو دھارو دور سے لیکر بیسویں صدی تک برصغیر کی کسی ریاست یا ملک کے ایسے حاکم کا نام سنا ہے جس نے اپنی کابینہ‘ درباری یا پارلیمنٹ کی اجازت یا مشورہ کے بغیر اپنی دھرتی کے دریاؤں کو ارزاں قیمت پر اس ملک کے پاس فروخت کر دیا ہو جسے حکمران اور رعایا دشمن تصور کرتے ہیں۔ عوام کو خبر تک نہ ہوئی حکم صادر ہوا کہ اگر متعلقہ محکمہ کے کسی افسر نے یہ خبر لیک آؤٹ کی تو اسے فارغ کر دیا جائے گا۔ تاریخ عالم کا یہ پہلا اور منفرد المناک المیہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے دور میں ہوا۔برسوں بیت گئے جب فیلڈ مارشل ایوب خاں نے انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پنجاب کے تین دریاؤں (ستلج‘ بیاس‘ راوی) کا پانی بھارت کے پاس سو کروڑ روپوں میں بیچ ڈالا۔ اس سے بجلی کی پیداوار اور زرعی رقبوں کیلئے پانی کی قلت پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔ اسے ڈیموں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کے دریاؤں میں پانی کم ہوا تو پاکستانی حکمران بھارت سے تو دو دو ہاتھ نہ کر سکے جنہوں نے چناب اور جہلم پر ڈیم بنا لئے تھے البتہ امریکہ کے سامنے واویلا شروع کر دیا کہ انہیں پانی کی قلت سے نجات دلائی جائے۔ امریکہ نے پاکستان کو سکارپ سکیم کے تحت ہزاروں ٹیوب ویل دے دیئے۔ یہ وہ ٹیوب ویل تھے جو امریکہ میں سکیم آبپاشی کے تحت لگائے گئے۔ یہ سکیم وہاں ناکام ہوئی۔ تو ان ٹیوب ویلوں کو فوراً زمین سے نکال کر بڑے بڑے ویئر ہاؤسز یا گوداموں میں منتقل کر دیا گیا۔ ان ٹیوب ویلوں کے فیل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کو لگانے کے لئے تین سو فٹ کا بور کرنا پڑتا تھا۔ اتنی گہرائی سے زمین کے مضر سالٹ کھیتوں میں آجاتے جس سے کلر اور تھور ہو جاتا۔ ان سے امریکی زمین بنجر ہونے لگی تو انہیں اکھیڑ کر سٹور کر دیا۔امریکہ نے یہی ٹیوب ویل پاکستان کو دیئے۔ یہاں جب زمینیں کلر اور تھور سے بھرنے لگیں تو محکمہ آبپاشی کے ماہرین نے کسانوں کو مشورہ دیا کہ اپنے کھیتوں کو آدھا نہری اور آدھا ٹیوب ویل کا پانی ملا کر دو۔ آخرکار سکارپ سکیم کو ختم کرنا پڑا۔ ستلج‘ بیاس اور راوی کو اس ارزاں قیمت پر بھارت کے پاس بیچ دینے سے اس خطہ زمین کی آنے والی نسلیں ان تین دریاؤں کے پانیوں سے محروم ہو گئیں اور یہ رقم کس کس کے پیٹ میں گئی معلوم نہ ہو سکا۔ اب تو جن سیاسی لیڈروں‘ صنعت کاروں اور اعلیٰ افسروں کے 42 ارب ڈالرز صرف سوئس بنکوں میں پڑے ہیں اسکا کوئی پوچھنے والا نہیں۔بھارت نے چناب پر بگلیہار ڈیم اور جہلم پر وولر بیراج بنا لیا۔ دریائے نیلم جو دریا پاکستان کے حصہ میں آیا۔ وہاں بھی بھارت نے ڈیم بنا لئے جناب ظہور ڈاہر نے عالمی عدالت کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا ’’سابق وزیراعظم کے خصوصی مشیر کمال مجید اللہ کو یہ کیس عالمی عدالت میں لڑنے کی ذمہ داری سوپنی تھی۔ لیکن 11 ماہ انہوں نے عیش و عشرت میں گزار دیئے محض بھارت کو موقع دینے کے لئے وہ مقرر تاریخ پر عدالت میں پیش بھی نہ ہوئے اور نہ حکم امتناعی حاصل کیا۔ واضح حقیقت ہے کہ بھارت کو کشن گنگا ڈیم مکمل کرنے کے لئے وقت دیا گیا اور بھارت نے جب 80 فیصد تعمیر مکمل کر لی تو حکم امتناعی کیسے حاصل ہو سکتا تھا۔‘‘زمانہ قدیم میں اس وقت کی سپر طاقت سپارٹا کے فرمانروا نے ڈلفی کے مندر میں وفد بھیجا کہ ایک سوال کا جواب لائے۔ سوال تھا ’’کیا دنیا کی کوئی طاقت سپارٹا کو شکست دے سکتی ہے۔‘‘؟ مندر کے چبوترے پر کھڑے وفد کے لیڈر نے باآواز بلند سوال کیا۔ جواب آیا کہ ’’لگژری‘‘ یعنی جب عیش و آرام کا وائرس تمہاری قوم کے اندر سرائیت کر جائے گا۔ آج اسی مرض میں پاکستانی قیادت مبتلا نظر آتی ہے۔ جب کسی ملک کی قیادت عیاشیوں میں پڑ جائے اور کرپشن عام ہو جائے تو ملکی سلامتی کی کون پروا کرتا ہے۔ معزز قارئین! کبھی آپ نے سنا یا تاریخی اوراق میں پڑھا کہ کسی ملک کے دریاؤں کے پانیوں کو دشمن نے Tunnels اور ڈیمز کے ذریعے روک یا ڈائیورٹ کر لیا ہو اور حکمران کسی بڑے ڈیم کے ذریعے پانی ذخیرہ کرنے کا فیصلہ کریں لیکن اسی ملک کے بعض حکمران اور سیاسی لیڈر ایسے منصوبے کو سبوتاژ کر دیں۔ یہ بھی برصغیر کا شاید دوسرا المناک المیہ ہے۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل نے باقاعدہ منظور کیا۔ اسکے بعد پارلیمنٹ کمیٹی کے زیر تحت ٹیکنیکل کمیٹی میں چاروں صوبوں کے ماہرین نے بھی اسے منظور کیا۔ ایسا اتفاق رائے عموماً نہیں ہوتا۔ ملک کے آبی ماہرین بعض کا تعلق نوشہرہ سے بھی ہے چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم نہ بنا تو پاکستان کی زرعی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ملک اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔‘‘ یہی بھارتی منصوبہ ہے۔ لیکن افسوس کہ حکمرانوں اور بعض بڑے سیاسی لیڈروں نے ملک کے اس سلامتی کے مسئلہ کو کسی نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور بعض نے ہونٹ سی لئے۔پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جب وہ وزیر تھے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کالا باغ ڈیم کو بے ضرورت قرار دے دیا۔ پی پی پی حکومت نے بھارت کو چناب پر بگلیہار ڈیم چالو کرنے کی اجازت اور آشیرباد دی۔ آج کی خبر ہے کہ راجہ پرویز اشرف پر قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔مسلم لیگ ن کے سینیٹر جعفر اقبال نے سینٹ میں بیان دیا کہ ’’بھارت کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لئے سالانہ 12 ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔‘‘ اس پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے اراکین نے بہت شور مچایا اور جعفر اقبال کا مائیک بند کرنا پڑا۔ بیگم نسیم ولی خاں سرحدی گاندھی کی بہو نے کہا ’’امریکہ نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے کے لئے مجھے ایک کروڑ ڈالر کی پیشکش کی میں نے ٹھکرا دی‘‘ اعظم ہوتی نے کہا کہ اسفند یار ولی نے امریکہ سے تین ارب ڈالر لے کر پختونوں کے مفادات کا سودا کیا۔ کیا یہ سودا کالا باغ ڈیم کے لئے ہوا یا پختونستان کے لئے‘ یہ ہمارے بعض سیاسی قائدین کی حالت زار ہے۔ آبی ماہر محمد سلیمان خاں لکھتے ہیں ’’کشن گنگا ڈیم اور پھر وولر ڈیم کے بعد پنجاب کی وادی کو بنجر بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اپنے دریاؤں کے پانیوں کی حفاظت اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملکی سلامتی کے چند سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف ان قومی مسائل پر دلیری اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ ملک کی زرعی زمینوں کو بنجر ہونے۔ رعایا کو اندھیروں میں ڈوبنے اور غریب عوام کو قحط سالی سے بچائیں تاکہ آئندہ مؤرخ آپکو عیاش‘ مفاد پرست اور لیٹرا لکھنے کی بجائے حب الوطنی اور باکردار لیڈروں کی صف میں شمار کر سکیں سندھ طاس معاہدہ پر نظرثانی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Posted on: Thu, 23 Jan 2014 07:20:53 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015