ღo• گل •oღ “When the Master places the spade in the - TopicsExpress



          

ღo• گل •oღ “When the Master places the spade in the hands of a slave, ہم کیا ہیں؟ یہ جاننا شائید اتنا مشکل نہ ہو مگر یہ ماننا بہت مشکل ہے۔شیطان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔عمر بھر کی ریاضت کے بعد اسنے ایک مقام حاصل کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایسی رکاوٹ عبور کر لی جو اسکی نوع کیلئے خواب سے بھی بڑھ کر تھی۔وہ خدا کے مقربین میں شامل ہو گیا۔یہاں اگر وہ یہ سمجھتا تھا کہ اسنے منزل کو پالیا تو وہ یکسر غلط تھا۔عشق کی راہوں پر کوئی منزل نہیں ہوتی۔صرف راستہ ہی راستہ ہوتا ہے اور راستہ بھی ایسا جو ہر قدم دشوار ہوئے جاتا ہے۔ اسے بھی ایک ایسے ہی امتحان میں لا پھینکا گیا۔بنا سوچے سمجھے اطاعت کا حکم ہوا۔وہ مانتا تو اپنی سرشت سے غداری کا مرتکب ہوتااور نہ مانتا تو بغاوت کا۔مولانا روم فرماتے ہیں “When the Master places the spade in the hands of a slave, The slave knows his meaning without being told .” شیطان کے ہاتھ میں بیلچہ (عقل،شعور، منطق، علم،پرکھ)تو مالک نے بہت پہلے تھما دیا تھا۔وہ قعرِ مذلت کا باسی تھا۔ایسے نگر کا باسی تھاجہاں ہر سمت گناہ،سیاہ کاریوں اور برائیوں کے غلغلے تھے۔ایسےمیں اسنے اپنے بیلچے کو استعمال کیااور اپنے لئے ایسی راہ تخلیق کی جو اسے سیدھی خدا تک لے آئی۔وہ ہزاروں برس تک عبادت کی جس بھٹی میں جل کر اس مقام تک پہنچا تھاوہ یکایک غیر متعلق ہو گئی۔اسے اپنا سارا مقام،ساری عبادت،ساری ریاضت غیر اہم نظر آنے لگی کیونکہ وہ اب ان ملائکہ میں بودوباش رکھتا تھاجنہیں گناہ کا احساس بھی چھو کر نہیں گذرا تھا۔جن کا ہر سانس بارگاہِ الہی میں شکر سے بھرا تھا۔وہ ایسے میں کیا کرتا؟اسکے دل میں اگر کوئی سوال بھی اٹھتاتو اسے خوف محسوس ہوتاکہ کہیں وہ گناہ کا مرتکب تو نہیں ہو رہا؟۔اور پھر اسے ایک امتحان میں ڈال دیا گیا۔امتحان بھی ایسا کٹھن کہ وہ ملائکہ جو خدا کے ہر حکم کو بلاچون و چرا بجا لاتے تھے وہ بھی سوال کرنے پر مجبور ہو گئے اور جن کے اعتراضات کو دور کرنے کیلئے خدا کو آدم کو ناموں کا علم دینا پڑا۔ ایسے میں شیطان کیا کرتا؟اسکی سرشت، اسکی منطق، اسکا دل سب گواہی دے رہے تھے کہ یہ سجدہ اسے جائز نہیں ہے۔پر سجدہ نہ کرنے کا مطلب خدا کی حکم عدولی تھا۔یہی وہ مقام ہے جہاں شیطان کائنات میں اپنے مقام کو پہچان جاتا ہے۔وہ جو ہزاروں برس کی عبادت اور جستجو کے بعد بھی خود کو پہچان نہ سکا آج خود کو پہچان لیتا ہے اور جان جاتا ہے کہ خدا نے کیوں اسکی تخلیق کی۔اور بڑا دل چاہیے ہوتا ہے اس معرفت کیلئے بھی۔ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے اندر بیٹھے شر کو دیکھ لیتے ہیں۔اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم اسے اپنے اندر سے کبھی نہ نکال پائیں گے (کہ یہ ہمارا اٹوٹ حصہ ہے) ہم پھر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ تقدس کی کسی موٹی سی ردا سے خود کو ڈھانپ لیں تاکہ نہ تو کوئی اور نہ ہی ہم خود اپنے اندر کے شر کو دیکھ سکیں۔ مگر شیطان ہم سے بہادر نکلا۔اسنے خود کو جانا اور مان لیا۔وہ مسکرایا اور اپنی ساری عمر کی متاع کو مٹی میں ملا کر حکمِ خداوندی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ایک اور امتحان کی بھٹی میں جلنے کیلئے تیار ہو گیا۔خدا نے اسے مردود کہا تو وہ بے عملوں کی طرح ڈھے نہیں گیا۔اسنے خود کو پہچان کر نہ صرف مان لیا بلکہ اس مقصد کیلئے عمل پر بھی تیار ہو گیا۔ خداوندِ تعالی نے اسے مہلت دی اور یوں یہ سارا کھیل شروع ہو گیا۔مجھے لگتا ہے کہ جب یہ ساری بساط لپیٹ دی جائے گی اور جنت و دوزخ کا فیصلہ ہو گا تو شیطان کو جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ڈال دیا جائے گا اور اسکا عذاب سب سے سخت ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔پر پتہ نہیں کیوں مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ پھر بھی خدا کا شکر بجا لائے گا کہ خدا نے اسے وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی جس کے لئے اسکی تخلیق کی گئی تھی۔ جونک اور تتلیاں از سید اسد علی
Posted on: Sun, 14 Jul 2013 16:42:59 +0000

Trending Topics



other you personally that this British

Recently Viewed Topics




© 2015