Come forward the sincere people of Pakistan. You were looking for - TopicsExpress



          

Come forward the sincere people of Pakistan. You were looking for a leader? Now you have a leader who need public support Only to deliver as per your expectations. I fully endorse the feelings of the writer and support him in his endeavour. کی حمایت بڑھانا - اے پی ایم ایل کا کردار - سپورٹرز کا کردار معاملات کی پیچیدگی کم کرنے اور آگے قدم بڑھانے کے لئے کچھ وضاحتیں (محمد حبیب) اے پی ایم ایل ایک نئی پارٹی ہے جو 2010 میں وجود میں آئی۔ یہ پاکستانی سیاست میں ایک حقیقی تبدیلی کا نام ہے، جو پاکستان کی روایتی کرپٹ اور لسانی و مذہبی سیاسی پارٹیوں سے ہٹ کر خالص حب الوطنی اور ترقی پسند سیاست کو طرف عوام کی حد تک لانے کا نام ہے۔ اور اسی غیر روایتی سٹرکچر کی بنیاد پر یہ پارٹی رکاوٹوں کا شکار ہے۔ روایات توڑنا اتنا آسان کام نہیں۔ اس کے لئے سپیشل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشرف صاحب کی ہسٹری ایسی ہے کہ جس جس نے مشرف سے فائدہ اٹھایا، اسی نے مشرف کو ڈسا۔ یہ سلسلہ مسلم لیگ ق اور دیگر کولیشن پارٹیوں، عمران، عدلیہ، میڈیا، فوج سے لے کر این آر او کے ذریعے سے بچائی گئیں عوام کی محبوب اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے لیڈران تک سب جگہ جاری رہا، اورآج تک جاری ہے۔ مشرف نے بہت سے پاکستانیوں کے کہنے پر سیاست میں آنے کا ارادہ کیا اور پارٹی بنائی۔ مشرف نے اپنے لیکچرز کا کام جاری رکھ کر پاکستانیوں پر چھوڑ دیا کہ پارٹی اور ان کی حمایت کو پاکستان میں کامیاب کیا جاتا ہے کہ نہیں۔ مشرف کی فطرت ہے کہ وہ کوئی کام زبردستی نہیں کرتا۔ عوام کی ایسی مخالفت جس سے ملک کے اندر انارکی اور انتشار پیدا ہو، مول نہیں لیتا۔ کالا باغ ڈیم اس کی ایک مثال ہے۔ ایک فوجی کی حیثیت سے نازک جنگی فیصلے تو ضرور لیتا ہے؛ مگر سیاسی فیصلوں میں عوام کی حمایت چاہتا ہے۔ اور اس کی یہی فطرت ہمارے یہاں اے پی ایم ایل کی ایسی حالت تک چلی آ رہی ہے۔ مشرف کا پارٹی اتنا لیٹ بنانا اور پھر پاکستان اتنا لیٹ آنا اسی وجہ سے ہے کہ عوام میں مشرف کی جنرل حمایت اوپن نہیں ہے۔ مشرف کی حمایت اوپن اس لئے نہیں ہے کہ پاکستان میں مذہب کا سٹرکچر انتہائی جہالت، مسلک پسندی، شخصیات پرستی، اور عین قرآن کو چھوڑ کر دیگر روایات پر دین کو اٹھانے پر مبنی ہے۔ مشرف پر امریکہ، انڈیا، افغانستان سے لے کر اپنے ملک کی سیاسی، سول، اور مذہبی طاقتوں نے الزامات کا بازار گرم کیے رکھا؛ مگر مشرف پر کوئی آنچ نہ آئی: تاوقتیکہ خارجی شیطانوں نے بہت دور سے اپنے آقاؤں کے کہنے پر ایک نہایت پیچیدہ گیم لال مسجد میں بیٹھ کر ڈیزائن کی، اور مشرف کے قریبی سیاسی ساتھیوں اور میڈیا سے مل کر مشرف پر فائنل وار کر دیا۔ مشرف کے پاس فوری طور پر اپنے دفاع کا کوئی قابل ذکر ذریعہ نہ بچا؛ کیوں کہ اب اس کے سامنے مسلم تاریخ کے سب سے جاہل لوگ تھے، جو دین کے نام پر خودکش دھماکوں کی حمایت کرتے تھکتے نہیں، اب بھی کسی نہ کسی بہانے سے حمایت جاری رکھتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اور مکار جج کو ساری مشرف مخالف قوتوں نے اپنے سر پر بٹھا کر ہیرو بنا دیا۔ مشرف کا زوال اب لازم ہو چکا تھا اور ایک ہی سال میں مشرف کو جانا پڑا۔ مشرف نے اپنی حکومت کے دوران، جاتے ہوئے اور بعد ازاں جو جو بھی وارننگز دیں؛ سب سچی ثابت ہوئیں؛ اور آج تک گزرنے والے ہر دن میں کسی ایسے حل کو پکارا جاتا ہے جو مشرف سالوں پہلے اپنی قوم کو بتا چکا تھا۔ زرداری کے آنے کے بعد لوگوں کو مشرف کی ویلیو سمجھ آنی شروع ہوئی، مگر مذہبیت، میڈیا، فرینڈلی اپوزیشن اور مکار عدلیہ کی وجہ سے یہ حمایت کوئی سٹریم نہیں پکڑ سکی۔ یہاں پاکستان کو بچانے کا جو خلا پیدا ہو رہا تھا وہ نواز لیگ کی بی ٹیم یعنی عمران خان نے نہایت چالاکی اور انٹرنیشل پلان کے مطابق تبدیلی کا نعرہ لگا کر پی ٹی آئی کے ذریعے فل کرنا شروع کر دیا۔ عام عوام کے پاس حقیقت جاننے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور وہ ان سب گروہوں میں ہی پھنستے چلے گئے؛ بنیادی طور پر میڈیا کی وجہ سے، جو ان سب قوتوں کو خوراک کے طور پر دن رات عوام کو مہیا کر رہا تھا۔ مشرف نے الیکشن کے اعلان پر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ اے پی ایم ایل پارٹی لیڈران کی وجہ سے دن بدن کمزور پڑ چکی تھی، مگر مشرف کو آنا تھا؛ کیوں کہ مشرف نے پاکستان آنے یا نہ آنے کے پیچیدہ معمے میں سے واپس آنے کو ترجیح دی۔ یقینا ہماری طرح مشرف کو بھی نظر آ چکا تھا کہ پاکستان میں سب فیل چل رہے ہیں۔ فوج میں مشرف جیسی لیڈرشپ نہیں تھی، اور نیک ارادوں سے اٹھائے گئے عمران نے بھی مایوسی اور غداری کے سوا کچھ نہ دیا۔ الیکشن آئے اور اربوں کی انٹرنیشنل فنڈنگ، میڈیا، مکار عدلیہ، امریکہ اور اتحادیوں کے ذریعے سے نواز اور اس کی بی ٹیم کو آگے کر دیا گیا۔ مشرف کو چن کر ہر قسم کی الیکشن سرگرمیوں سے روک دیا گیا۔ اے پی ایم ایل مشرف کی غیر موجودگی کی وجہ سے پہلے ہی تباہ حال تھی؛ اس لئے مشرف حامیوں میں یہ بات متنازعہ رہی کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہیئے کہ نہیں۔ ادھر مشرف کو جن ساتھیوں نے گھیر رکھا تھا ان کی اکثریت مفاد پرست اور بزدل لوگوں کی تھی۔ مشرف کو سیاست پر توجہ کم کر کے صرف اپنے مقدمات کے جنگ میں توجہ دینی پڑی۔ بیرسٹر سیف اور اس کے بعد ڈاکٹر امجد، اور جن لوگوں کے ہاتھ بھی پارٹی رہی؛ وہ پارٹی کو چھوٹے ٹیلی فونک جلسوں اور ڈرائنگ روم سے باہر عوامی پارٹی نہ بنا سکے۔ جبکہ لاکھوں اور کروڑوں کے فنڈز ضرور خرچ ہوتے رہے۔ ڈاکٹر امجد کے انڈر پارٹی اس قدر برائے نام پارٹی بن کر رہ گئی کہ وہ شخص عین اپنے حلقے میں بھی مشرف کے نام پر نہ تو کوئی جلسہ کر سکا؛ نہ ہی پبلک کا اور نہ ہی مشرف حامیوں کا سامنا کر سکتا ہے۔ ایک چیلنجنگ پارٹی کا چلانا ان لوگوں کے بس کی بات نہیں؛ یہ ان سب نے اچھی طرح ثابت کیا۔ مشرف کو غیروں کے بعد اپنے بھی پے در پے اتنا ڈس چکے ہیں کہ مشرف کو اپنے اٹل ارادے اور ملک کے لئے درد رکھنے والے چند لوگوں کے مشورے کے سوا ملک میں رہنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ پارٹی وہ کس کے حوالے کرے، تین سال سے خوشنما چہروں کو آزما چکا ہے، اعتبار کس پر کرے۔ مشرف کے لئے عوام میں انقلابی حمایت پیدا کرنے کے بجائے زبانی تسلیوں کے ساتھ ملاقاتیوں اور تصویریں کھنچوانے والوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے؛ وہ آخر کس شخص پر اعتبار کرے۔ مشرف کے لئے کوئی تو کچھ کر کے دکھائے تو مشرف کی مایوسی سے ڈھکی آنکھیں امید کی کرن سے دوبارہ روشن ہوں! مشرف کے لئے آج تک چھوٹے پیمانوں پر بیرون ملک اور اندرون ملک کئی ایک احتجاج کیے گئے: مشرف نے کبھی منع نہیں کیا؛ بلکہ زبانی سراہا بھی اور مرکزی فیس بک پیج پر وہ خبریں شائع بھی کی گئیں۔ جبکہ دوسری طرف پارٹی ہائی جیکرز کی طرف سے مسلسل زبانی کمپین کے بعد اب باقاعدہ لیٹرز ایشو کیے جاتے ہیں کہ کسی قسم کا احتجاج مشرف کے لئے نہ کیا جائے۔ مشرف کے چاہنے والوں کو ایسی سازشوں کو ہر حال میں مٹا کر رکھنا ہو گا: تین ماہ ہو چکے ہیں مشرف کو ذلیل کرتے ہوئے؛ اب مزید کسی بھی چال میں ان کی نہیں آنا۔ ورنہ مشرف کو پھانسی یا ملک سے جلاوطن کر دیا جائے گا؛ اور ہم گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے! مشرف کو فیس بک بھی مایوس کر رہی ہے۔ ہزاروں لوگ روز مشرف کی حمایت میں کچھ پوسٹ یا کومنٹ کرتے ہیں: مگر ان میں کتنے ہیں جو مشرف کے لئے گھر سے باہر نکل کر لوگوں کو مشرف کی اپنی حمایت دکھاتے ہیں؟! مشرف کی مخالفت پر جاہلوں کا منہ بند کرواتے ہیں؟! اگر ہمارا فیس بک یوز مشرف کی گراؤنڈ حمایت پیدا نہیں کرتا تو یہ فیس بک کمپنی کی ریسائیکل بن میں ہی جائے گا، اس سے زیادہ ان ساری باتوں کی کچھ بھی حیثیت نہ ہو گی۔ اے پی ایم ایل چاہے ابھی ری سٹرکچر کی جائے یا بعد میں کبھی؛ مشرف کو بچانے کا اس کو کوئی خاص تعلق نہیں۔ مشرف کو جس چیز کی ضرورت رہی ہے اور اب پہلے سے زیادہ ہے: وہ عوامی حمایت ہے۔ قوم کے لئے مشرف کی حیثیت ایک باپ کی ہے۔ کسی کے باپ کو اغواء کر لیا جائے تو وہ کسی لیٹر یا این او سی کو نہیں مانگتا، بلکہ دیوانہ وار ہر رکاوٹ کو پار کرتا اپنے باپ کو بچاتا ہے! from a supporter of sir musharaf, Muhammad Habib
Posted on: Fri, 09 Aug 2013 16:11:58 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015