صحافت ، بلوچ اور حامد میر کا قلم - TopicsExpress



          

صحافت ، بلوچ اور حامد میر کا قلم کمان عبدالطیف بلوچ ماہنامہ سنگر ستمبر شمارہ صحافت کی روح تجسُس سے ہے ۔ صحافت صحیفہ سے نکلا ہے۔ صحافت کے مقاصد مطلع کرنا ، رہنمائی کرنا ، تعلیم دینا ، تفریح مہیا کرنا ہیں ۔صحافت ہی لوگوں کو وہ سب معلومات مہیا کرتا ہے جو وہ نہیں جانتے۔ بحیثیت صحافی وہ سماج جہاں میں رہتا ہوں اور جس قوم سے میرا تعلق ہے آواز اُٹھانا میری صحافتی و انسانی ذمہ داری ہے اور یہی مجھے صحافتی فریضہ بھی سیکھاتا ہے۔ہمارے معاشرے کے مڈل کلاس پاس صحافیوں سے لے کر کالج و اسکول پاس صحافیوں سے ہوتے ہوئے چند پروفیشنل صحافت میں ڈگری حاصل کرنے والے صحافیوں تک تقریبا کسی نے بھی صحافتی قلم کو سو فیصد تو اپنی جگہ نصف فیصدصحافتی حق اپنی قوم اور معاشرے میں بسنے والے اقوام کے آفاقی حق و ان پر جاری جبر پر کھل کر قلمی،صحافتی احتجاج بلند نہیں کیا۔کسی بھی معاشرے میں حقوق دلانے میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافتی اداروں کا بڑا رول ہوتا ہے لیکن جس طرح یہاں کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اس سے بدتر انسانیت کے نام پر بنے انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافت اور صحافتی اداروں کو بھی انکی اصل شکل سے مسخ کرکے رسوا کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی شخص اخبار نہ پڑھ لے، ریڈیو نہ سن لے اور نہ ہی ٹی وی دیکھ لے تو اسے پورے دن یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک ایسے کمرے میں بند ہوں جہاں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔ میں تو ہر وقت اخبار پڑھتا ہوں ، ریڈیو سُنتا ہوں اور ٹی وی دیکھتا ہوں لیکن اخبارات کو پڑھنے ، ریڈیو سننے اور ٹی وی دیکھنے کے بعد مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے صحافت کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ ایسا لگتا ہے خبروں ، مضامین،تجزیہ وٹاک شوؤں کو صرف یا تو پیسے کمانے کے ذریعے یا توحاکم وقت کے ترجمان کہنا غلط نہ ہوگا۔ بلکہ جس معاشرے کے انسان کے حقوق ہی نہ رہے ہوں یا حقوق پر ڈاکہ زنی ہو یا وہ سبنگ (Subbing)ہو رہے ہوں۔پھر ذہن میں یہی سوال ہر وقت سر اٹھانے لگتا ہے ۔ کیا ہینڈ آوٹنگ(Hand Out)تو نہیں ہورہا ہے؟تو مجھے ایک بہت بڑا خطراہ محسوس ہونے لگتا ہے ایسا نہ ہو کہ صحافت کے حقیقی اصولوں کو مسخ کرکے یس مین جرنلزم(yes man journalism)کو پروان چڑیا جارہا ہے۔ایسا لگتا صحافت میں معروضیت(objectivity)کا فور ہوچکا ہے۔اکثر صحافیوں کے اظہار رائے انفرادی رائے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ ہمارے سوسائٹی کے بڑے سے بڑے واقعات کی خبریں میری مراد خاص کر مظلوم بلوچ قوم و اسکا معاشرہ ہے کبھی بھی اخبارات کی لیڈ یا سپرلیڈ(super lead)میں جگہ نہیں بناپھاتے۔ ایک ہی دن میں 10, 15مسخ شدہ لاشوں کا نیوز ہو یا گاؤں کے گاؤں کو جلاکر صفحہ ہستی سے مٹنے کے واقعات ہوں ۔یاپھر انسانوں کو جہالت سے نکالنے والے میرے عظیم استادوں اور صحافت کو عملی جامہ پہنانے والے بلوچ صحافیوں کا قتل عام کا نیوز ہوں۔قوموں کے معمار اور طلباء نسل کا روزانہ اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی خبریں ہوں یا بلوچ دھرتی کی قیمتی معدنیات سے لوڈ ٹالروں کے قطاروں کے راستوں پر کھڑے مظلوم بلوچ گداگروں کے بھیک مانگنے کے وجوہات اور ٹالروں کی قطاروں کی منزل جو دوسرے قوموں اور ملکوں میں جاتے ہیں انکے وجوہات کی خبریں چلتی ہوں۔بلوچستان پر جاری کسی بھی جبر پر تبصرے، تجزیے یا کالم نگاری تو جیسے کناہ کبیرہ ہوگئی ہے۔ بقول حفیظ حسن آبادی صاحب کے کہ ’’ بلوچستان میں سو آدمی کے قتل پر اتنی خبر کی تشہیر نہیں ہو تی جتنا کراچی اور لاہور میں کسی اجتماع پر پولیس لاٹھی چارج کا ہوتا ہے‘‘۔ ہاں اگر کسی بلوچ صحافی یا ادارے نے کچھ لکھنے یا آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو انکا رزلٹ صدیق عیدو، الیاس نذر، سیف بلوچ، لالا حمید سمیت کئی بلوچ صحافیوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی یا حاجی عبدالرزاق سمیت دوسرے صحافیوں کی اغواء کی شکل میں سامنے آتا ہے یا پھر سچائی بیان کرنے والا ادارہ خود خبر بن جاتا ہے جیسے کہ روزنامہ توار اخبار کی دفتر کا راکھ میں بدل جانے کی خبر ۔جہاں خبریں اشاعت کے ساتھ خبر بنتی ہیں وہاں سچائی خود کسی مقتدرہ کے ادارے کی خبر بن جاتی ہے یا پھر انتخاب اور دوسرے بلوچ اخبارات کو بند کرنے کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں ۔اس کا قصور واروہ ہاتھوں کا قلم جو اپنی مقاصد وسچائی بیان کر کے حاصل کرنے کیلئے اپنی جان کی بازی لگا رہا ہے نہیں ہوتا بلکہ سامراج کا وہ طبقہ یا قابض ہے جو اس قلم و آواز کو خاموش کرنے کے درپے ہوتا ہے ۔مگر حیرانگی تو انٹرنیشنل صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کی خاموشی اور جانب داری پھر ہوتا ہے جو علم و سچائی کا رونا ضرور روتے ہیں مگر عملًا خاموشی اورذاتی تحفظ صحافت پر حاوی ہو جاتا ہے ۔صحافتی اصولوں کو پامال کرنے میں مقامی میڈیا نے بھی سستی نہیں دکھائی ہے ۔میں اچھی طرح جانتا ہوں کے میڈیا کو ریاست کی چوتے ستون کا مقام حاصل ہے لیکن صحافت کی اپنی اصولیں بھی ہوتی ہیں ۔یہاں کے صحافت میں تجسس کی بہت کمی ہے۔یہاں کے واقعات کی رپورٹنگ ابہام کے ساتھ کی جاتی ہے اور اکثر سیاسی لیڈروں ، پارٹیوں سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہماری خبروں کو پروف ریڈنگ کے دوران اپنی طرح بناکر شائع کیا جاتا ہے اور بہت سے سینیئر بلوچ صحافیوں اور رائٹروں کا کہنا ہے کہ ہمارے کالموں ،مضامین کو بھی اخبارات نہیں چھاپتے ہیں اور ہمیں تبصرے کرنے کی اجازت نہیں دیاجاتا ہے۔میرے اس وسیع جغرافیا پر پھیلے ہوئے معاشرے میں بڑے بڑے صحافتی اداروں کے رپورٹر صرف کوئٹہ تک محدود ہیں ، جبکہ وجوہات پوچھے جائیں کہتے ہیں کہ ہمیں اجازت نہیں تو ایک اور سوال خود بخود جنم لیتا ہے کہ وہ کونسی طاقت ہے یا کونسے ہاتھ ہیں ہمیں جانے نہیں دیتے ۔ کیا ان پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا؟ کالم نہیں لکھا جاسکتا ؟ یا رپورٹنگ نہیں کی جاسکتی ؟؟ْ؟ کیا ہمارے(صحافیوں )کی خاموشی اور ڈر یاکہ جانب داری صحافت کی قوت کو کم نہیں کررہی ؟ اور ہماری دیانت داری ، فرض شناسی اور صداقت کو مشکوک نہیں بنا رہا ہے؟یہاں تومختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات ہیں ۔ بہت سارے تجزیہ کار ، کالم نویس اور ڈرامہ نویس ہیں میں اکثر یت کی تجزیوں ، کالمز کو پڑھتا ہوں مجھے اصل صحافت کی زبان یا قلم کاری نظر نہیں آتا۔ کبھی کبھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاہد میری علم ہی ان تجزیہ کاروں ، کالم نگاروں یا ڈرامہ نویسوں کو سمجھنے کی حد تک پختہ نہیں ہے اس لئے مجھے انکے کالم اور تجزیے صحافت سے ہٹ کر نظر آتے ہیں ۔ شاید ان دانشوروں ،صحافیوں کے لیے علم،صحافت صرف رقاصہ سے زیادہ کچھ نہیں مگر میرے خیال میں علم و زانت و صحافت وہی ہے جو حق و باطل کے خلاف ببانگ دھل اظہار رائے کے ساتھ انصاف کرئے۔۔مگر اس گٹھن سماج میں اکثر صحافت کو رکھیل ہی پھایا۔کبھی حاکم وقت کا تو کبھی سرمایہ دار کا تو کبھی خوداس شخص کا جو صحافی ہونے کا دعوئے دار ہوتا ہے۔ پھر خیال گزرتا ہے کہ شاید سماج میں سچائی وظلم کے خلاف لب کشائی کرنے والے چند افراد جو اب ہم میں نہیں رہے غلط یا کڈوس تھے مگر پھر اپنی آنکھوں کے سامنے روز اپنی دھرتی پر حوا کی بیٹی کو ننگے سر لوٹتے دیکھ کر اور سرزمین بلوچ و سرزمین سندھ پر غلامی کی پکار جو سماجی زنجیروں کو تھوڑ نہ پھایا اس کوشش میں روز لہولہان ہے اور میڈیا و صحافتی برادری کی خاموشی و نیوز رپورٹنگ و ٹاک شوؤں میں قیمت بڑھانے کے سوا کچھ نہیں تو پھر یقین ہوجاتا ہے کہ سب حدشات حقیقی ہیں۔ہمارے معاشرے میں اس صحافت کو popular journalism))کا مقام حاصل نہیں ہے۔کسی نے تھینک پیس(think piece) آرٹیکل لکھا اور نہ ہی بلوچ سول سوسائٹی و لکھاریوں کے جو لکھنا چاہتے بھی ہیں تو قلمی نام اختیار کرتے ہیں اور پھر کسی بھی تحریر کو کہیں جگہ نہیں ملتا اور اگر بلوچ میڈیا جو چند آدھ میگزین و ایک دو اخبارات میں کبھی کبھار غنیمت سمجھ کر جگہ مل بھی جاتی ہے تو خوف سے گمنام مصنف (Ghost Writter)بن کر۔ ایم ۔ایچ۔ڈی ینگ کہتا ہے کہ عظیم اخبار کا مقصدعوام کے مفاد کا حصول ہوتا ہے۔ مگرجس خطے میں یا خاص کر ریاست پاکستان یہاں کے سب سے مشہور ٹی وی چینل جیو نیوز اور جنگ اخبار ہیں اور پاکستان کے مشہورترین صحافیوں میں حامد میر شامل ہیں ۔اب انکی صحافت کو دیکھ کر اگر فیصلہ کیا جائے کہ وہ واقعی قلم و علم کے ساتھ صحافت کے معیار پر پورا اُترتے ہیں کہ نہیں یا انکی شہرت صرف آقا کی خوشنودی کی وجہ سے ہے۔یہ خود سے ایک لمبی بحث ہے۔ میرصاحب جیونیوز کے مشہور ٹاک شو Capital talkکا میزبان اور جنگ اخبار کے قلمِ کمان میں کالمز لکھتے ہیں ۔میں دوسرے پروگرام سے زیادہ کیپیٹل ٹاک کو دیکھتا اور قلم کمان کو بھی پڑھتا ہوں ۔لیکن بلوچستان کے بڑے سے بڑے حادثات۔واقعات،قرآن پاک کا جلانا،مسخ لاشیں،اغوا جیو نیوز کے نیوزبار(News bar)تک جگہ نہیں بناپھاتے ۔انکی صحیح کوریج تو دور کی کہانی ہے اور نہ ہی آج تک سرداروں اور نوابوں (جنکو بلوچ معاشرے نے ہر وقت اپنا دشمن اور قومی ترقی کے راہ میں رکاوٹ سمجھا ہے) کے علاوہ کسی اور لیڈر یا قوت کو حامد صاحب نے اپنے پروگرام میں مدعونہیں کیا ہے۔جن لوگوں کوحامد میر صاحب نے اپنے پروگرام میں جگہ دی ہے انکی بلوچ معاشرے میں اثر رسوخ صرف اپنی بھیٹک یا سرکاری دربار تک ہے ۔ میر صاحب خود اچھی طرح جانتے ہونگے اور ان پر بات بھی کی ہے۔ہاں یہاں ایک حقیقت ہے چاہے میں یا کوئی اور مانے یانا مانے جن افراد یا تنظیموں نے ایک ریاست کو چیلنج کیا ہوا ہے اور جنگ بھی کررہے ہیں ۔انکے مقاصد کیا ہیں وہ کیا چاہتے ہیں ۔ مجھ سے زیادہ سینئر صحافیوں ، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو اچھی طرح اس امر کا ادراک ہے۔ان کو کون کیا نام دے لیکن حقیقی طاقت وہی تنظیموں کا ہے اگر کوئی کہے انکو نظر انداز کرکے دوسرے جعلی لوگوں یا بالکل بے اختیار لوگوں سے اپنی ٹی وی شو کی پی آر بڑھائیں گے اور بلوچ مسئلے کے حل کو نکالا جاسکتاہے تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔آج تک نہ حامد میر صاحب نے آکر بلوچستان میں خاص رپورٹ بنایا کہ جتنے لوگ غائب ہیں اور انکے لواحقین کا الزام ہے کہ انہیں ریاستی فورسز نے اغوا کیا ہے اور نہ ہی کسی اور آزادی صحافتی ادارے کے دعوئے داروں نے جبکہ لواحقین اکثر کہتے ہیں کہ پولیس ہماری ایف آئی آر درج بھی نہیں کرتی اور اگر فورسز نے لوگوں کو اغواء کیا ہے تو وہ اپنی ہی قانون میں شامل اُس شق کی پامالی نہیں کررہے ہیں جس میں لکھا ہیکہ ’’ کسی بھی ملزم کو گرفتاری کے بعد 24گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کیاجائے اور اسے اپنی مرضی سے وکیل رکھنے اوراس سے مشورہ کرنے کی آزادی ہوگی۔کیا اس پر کالم نہیں لکھا جاسکتا کیوں تبصرہ نہیں کیا جاتا ہے؟میر صاحب کے 105کالمز پر مشتمل کتاب ’’قلم کمان ‘‘ کو بھی پڑھا ہے جس کے دیپاچہ میں میر صاحب نے لکھا ہیکہ اس کتاب میں آپ کو بلوچستان میں بدامنی کی وجوہات پڑھنے کو ملیں گی ۔ لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا کتاب میں ہاں صرف کتاب کے پہلے کالم ’’مینگل صاحب کو لاہور کون لائے گا‘‘ جس میں میر صا حب نے لکھا ہیکہ ’’ مینگل صاحب کو لاہور لانا ایک چیلنج ہے جسے پورا کرنا ہی پاکستان کی اصل خدمت ہے۔ جس دن مینگل صاحب لاہور آگئے تو وہ نوجوان بھی ہتھیار رکھ دیں گے جنہیں کچھ ہمسایہ ممالک اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ صرف عطاء اللہ مینگل ہی ان نوجوانوں کو یہ سمجھا سکتے ہیں کہ بلوچستان نہ پاکستان سے علیحدہ ہوسکتا ہے نہ ہی علیحدگی مسلے کا حل ہے‘‘ مینگل صاحب قابل احترام ہیں ۔ شاہد میر صاحب کے تجزیے اور تبصرے صحیح نکلیں اب مینگل صاحب کی پارٹی تو لاہور جاچکا ہے ۔میں یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ خود گئے ہیں یا میاں نواز شریف صاحب کی کوششوں سے گئے ہیں۔دیکھتے ہیں میر صاحب کی پیشنگوئی کہاں تک صحیح نکلے گی۔ کتنے ہتھیار اٹھانے والے بلوچ ہتھیار رکھ دیں گے اور جہاں تک ہمسایہ ممالک کے اپنے مقاصد کیلئے بلوچ نوجوانوں کے استعمال کا سوال ہے تو امید ہیکہ میر صاحب وہ بھی واضح ثبوت کے ساتھ اپنی ہی ٹی وی چینل پر دکھائیں گے اور بلوچوں اور ہمسایہ ممالک کی راز کو فاش کریں گے۔دوسری بات عطاء اللہ صاحب کا جو کہ بلوچ نوجوانوں کو کہاں تک سمجھا سکتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان سے علیحدہ نہیں ہوسکتا تو وہ رپورٹنگ اور غیر جانب دار تبصروں سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔جبکہ حقیقت کا اندازہ تو بلوچستان میں بسنے والے ہر بلوچ اور اہل قلم کو ہوگا اب دل بہلانے والے خیالات کو ٹاک شو میں تجزیہ کا نام دینا اور سامراج کی زبان و پالیسیوں کو تبصرے کہنا شاید یہی صحافت رہ گئی ہے تو وہ الگ پت جڑہے جسے خزان کہنے پرکمانِ قلم کمر بستہ ہیں۔ دیپاچہ میں ایک اور جملہ دیکھنے کو ملا اس کتاب میں نوجوان صحافیوں اور صحافت کے طلبا و طالبات کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ۔اور کیسے سخت حالات میں رپورٹنگ کی جاتی ہے ۔اس کیلئے میں میر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ جس میں ہمیں ہمارے کچھ پرانے صحافی دوستوں پر ظلم کے واقعات بتائے۔ جن میں بلوچستان کے نیاز بگٹی کو پابند سلاسل کرنے کی خبر شامل ہے ۔’’ پاکستان میں میڈیا واقعی آزاد ہے‘‘ کتاب میں شامل ہے جس میں حامد صاحب لکھا ہے کہ ’’ میڈیا کو متفقہ ضابطہ اخلاق بنا لینا چاہئے تاکہ صحافت بد دیانتی اور کرپشن سے پاک رہے‘‘ہر اہم قلم اور ذی الشعور انسان یہی چاہتا ہے کہ صحافت اپنی اصل اصولوں پر قائم رہے اور بددیانتی اور کرپشن سے پاک رہے۔آگے لکھتے ہیں کہ باز حکومتی شخصیات آزاد میڈیا کو اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں ۔ دراصل یہ منطق بھی غور طلب ہے کہ حکومتی شخصیات یا مقتدرہ چونکہ حکومتی شخصیات یہاں وہی ہوتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے نور نظر ہوں اور زیر دست بھی۔جناب لکھتے ہیں میڈیا کو تمام مشکلات کے مقابلے پر ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ہر انسانی اقدار کا حامی یہی چاہتا ہے کہ صحافت کی اصل حیثیت بحال ہو نی چاہیے ۔اصولاًمیڈیا کسی شخص یا جماعت کے تابع نہیں ہونا چایئے بلکہ صحافتی اصول ہی اسکا اوڑنا بچھوڑنا ہونا چائیے اور صرف سچ کا ساتھ دینا ہے۔ کیونکہ سچ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ہاں وقتی کانٹے ،رکاوٹیں،سنگینیاں تو حصہ ہیں زندگی سے جڑئے ہر سفر کا۔میر صاحب کی درباری صحافت کی جھلکیاں تو بہت دیکھی ہیں لیکن جس دن کوئٹہ میں معصوم طالبات پر حملے اور بی ایم سی ہسپتال پر دہشت گردوں کے حملے کے فوراََ بعد آپ نے جیو پر تبصرے کئے وہ مجھے غیرجانبدارنہ لگے۔ اور اس دن میر صاحب کی صحافت صرف مقتدرہ کی زبان بیان کر رہی تھی ہاں جس نے وہ حملے کیئے تھے وہ نہ انسان ہیں نہ کسی مہذب قومیت سے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب سے۔ نہ صرف بلوچ سماج بلکہ دنیا کا ہر انسانیت سے محبت کرنے والا شخص سختی سے حملوں کی مزمت کرتاہے ۔ایک صحافی کے لیے اسکے الفاظ ہی سب کچھ ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے تحقیقات اولین شرط ہے اور پھر تجزیہ ۔مگر میر صاحب تو فتوئے جاری کر رہے تھے۔ جو سب کچھ کر رہے تھے وانکو میر صاحب سے زیادہ شاید ہی کوئی بہتر جان سکتا ہے اور ان مذہی دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں یا بھی پوری پاکستانی میڈیا اچھی طرح جانتی ہے ۔ مگر جس طرح سامراج و قابض کا سلوک بلوچ کے ساتھ جاری تھا اس دن پاکستانی صحافت نے بھی الزامات کی بوجھاڑ اس طرح کی کہ یوں لگا جیسے آرمی یا اس ملک کے خفیہ ادارے بلوچ کے خلاف کیمپنگ میڈیا کے ذریعے کر رہے ہیں ۔ حیرانگی تو اس بات پر کہ جب لشکر جھنگوئی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تو حامد میر کے دوغلے فتوؤں پر پوری میڈیا خاموش تھی جیسے خاموشی کی سونامی۔ کیا صحافت رسوائی کا نام ہے یا کسی کو خوش کرنیکا،علم و قلم کی ہتھیار کو یوں فریق بن کر استعمال کرنا صحافت کے ساتھ بے حرمتی نہیں؟ ایک اور کالم جو 7جولائی 2008کا ہے ’’ کیا پاکستانی میڈیا کو آزاد نہیں ہونا چاہیے ‘‘ جس میں آپ نے لکھا ہے کہ مجھے یقین ہے 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ پتہ نہیں اگر میڈیا کی آزادی آج کی آزادی جیسا ہوتا کیا ہوتا یہی جو حقیقت کو مسخ کرنا جو آجکل بلوچستان میں ہورہا ہے یا سندھ و پختونستان میں ہو رہا ہے۔نیز اس ریاست کو خداد داد کہیں یا برطانیہ داد جس میں مظلوم اقوام کے ساتھ اور طبقات کے ساتھ جو ریاستی ظلم و جبر،قومیت کے نام پر مذہب کے نام پر،سرمایہ دار کی سرمایہ داری کے نام پر ہو رہا ہے ۔کیا میڈیا حامد میر کے ساتھ دیگر صحافتی گدھ جو پروگرام ،تجزیہ۔ٹاک شو کر رہے ہیں وہ آج کی آزادی صحافت ہے جس کو میر صاحب ۷۱ سے تشبیح دے رہے ہیں ہاں ایک تبدیلی ضرور آئی ہے اک پی ٹی وی سے تعداد بڑھ کر سو پی ٹی وی تک ہو گئی ہے۔قیمتیں ،معاوضے بڑھ گئے ہیں یہ تو ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔آج آزادی کے نام پر در پردہ حاکم وقت و اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کو بیلنس کرنا آزادی صحافت ہے؟ میر صاحب فرماتے ہیں کہ ۷۱ میں میڈیا کی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پتہ نہ چل سکا کہ فوجی حکمرانوں نے کیا کیا۔۔تو جناب بقول آپ کے اب تو میڈیا آزاد ہے۔آپ کے اسلام آباد میں جہاں لعل قلعہ پر اسی فوج نے گولے برسائے قرآن پاک کو جلایا آپ کا براہ راست پروگرام بھی چل رہا تھا پھر خاموشی۔۔میڈیا نے ڈیرہ بگٹی میں ایک عورت کی فوجی کپٹن کے ہاتھوں اجتماعی عصمت دری دیکھی پر آزاد میڈیا بقول میر صاحب نے کونسے تیر مارے۔۔بزرگ بلوچ نواب اکبر خان بگٹی کے گھر پر راکٹوں کی برسات ان پر فوج کشی اور انکی جسد خاکی کو غائب کر نا، روزانہ اسی فوج کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کا اغوا،مسخ لاشیں،سول آبادیوں پر بمباری میر صاحب اگر ۷۱ کی میڈیا غلام تھی تو اب کی میڈیا و صحافی کیا ہیں؟لفظ آزادی کا مطلب صرف قیمت و معاوضہ بڑھانہ ہے تو پر شاید آپکی صحافت سہی ڈھگر پر ہے۔۔آج میڈیا آزاد ہے بقول آپ کے تو خدارا کچھ حقائق کو غیرجانبداری کے ساتھ پیش کریں۔ اسی کتاب کے آخری کالم ’’ 16دسمبر اور 17جج‘‘ میں آپ نے لکھا ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کو کچھ معلوم نہ تھا کہ فوجی حکمران وہاں کیا کررہے ہیں کیونکہ میڈیا بہت کمزور تھا تو آج میر صاحب میڈیا آپ کہتے ہیں آزادہے تو آج بلوچ قوم جو اپنی حق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے تو آپکی آزاد میڈیا و صحافت اس حقائق کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں اور بلوچ کودہشت گرد قرار دیتے ہیں کیوں اس میڈیا سچ کو بیان کر نے کی طاقت نہیں کہ 27 مارچ1948 کو آپکی فوج نے بزور شمشیر بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا تھا کیا تاریخ کی کتابوں سے قبضہ کونکال دیا گیا ہے۔یہی قبضہ تو بنیادی مسلہ ہے پھرکیوں حق سچائی کی بات کرنے والے آزادی صحافت کی ڈحول بجانے والے یہ بیان نہیں کر پھاتے کہ بلوچ کو حق رائے دہندگی کا حق حاصل ہے۔اس پر قبضہ کیا گیا ۔ آپ کے ایک اور کالم ’’کرامویل اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی ‘‘ کے عنوان سے 22جولائی2013ء جنگ اخبار میں چھپی ۔ جس میں آپ نے عافیہ صدیقی کیلئے انارجی لباس والے مظاہرین کا ذکر کیا ہے ۔ بہت اچھا لگا کہ آپ کسی عورت کے مطلق لکھ رہے ہیں اب وہ گناہ گار ہے یا بے گناہ اس کا فتوہ تو نہیں دے سکتا البتہ آزادی صحافت کا تقاضہ ہے کہ آواز اُٹھائی جائے فیصلہ یا فتوہ صحافت نہیں۔ جس طرح آپ نے پنجاب و عافیہ سے لے کر دیگر کے بارے میں لکھا اب وہ صحافتی ذمہ داریاں تھیں یا کچھ اور کہہ نہیں سکتے مگر بلوچ زرینہ مری کی اغواء دوسالہ بختی کی شہادت اور دوسرے سینکڑوں بلوچ عورتوں ، بچوں اور ہزاروں بلوچ فرزندوں کی اغواء اور قتل کے ملزماں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے ماما قدیر کی انسانی حقوق والی ٹیم کا ساتھ دے کر انکو بھی پورے دنیا میں high lightکرنے کے لیے آپ کے قلم نے کبھی کاغذ پر سیاہیوں کو نہیں لہرایا اسی طرح یک طرفہ ٹاک شو کے علاوہ بھی الیکٹرانک میڈیا پر بھی کوئی مناسب پروگرام نہ ہوئے اک جانب بلوچستان کو رقبہ کے لحاظ سے اپنی ریاست کا آدھا حصہ کہتے ہیں مگر قلم و آواز دونوں قاصر ہیں سچائی بیان کرنے سے ۔ آپ نے لکھا کہ سینہ تان کر امریکی صدر سے یہ پوچھیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ایک امریکی فوجی پر قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام کے سوا تمارے پاس اور کون سا ثبوت ہے؟۔میں بھی اوبامہ کو آپ کی آواز کے ساتھ آواز ملاکر یہی سوال کروں گا عافیہ کیلئے۔اورامیدہے آپ بھی ٹی چینل کی توسط سے ان قوتوں سے یہی کہیں کہ جتنے بلوچ غائب ہیں یا قتل کردیئے گئے ہیں انکی ملزم ہونے کا ثبوت پورے دنیا کے سامنے لائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ کسی میں یہ ہمت نہیں ہوگا اور نہ ہی ثبوت ہوگا۔۔اسی کالم میں آپ نے مزید لکھا ہے کہ برٹش لائبریری کے ایشین اینڈ افریقن سینٹر میں پرانے ریکارڈ کی مدد سے ہندو اکثریتی ریاست جونا گڑھ کے مسلمان حکمران نے 1947ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو برطانیہ کی حکومت نے اس الحاق کو نہیں مانا ۔ دوسرے سال(1948)میں ایک اور الحاق پاکستان اور بلوچستان کے درمیان پاکستان کہتا ہے ہوا اور بلوچ کہتے ہیں کہ جبری کروایا گیا۔اس کا بھی ماسٹر مائنڈ بلوچ برطانیہ کو جانتے ہیں ۔ اسی لائبریری میں بہت سے تاریخی راز دفن ہیں آپ نے خود یقیناًپڑھے ہونگے ۔مگر حقیقت کو بیان کر نا شاید آپ کے آج کی آزادی میڈیا کا شیوا نہیں۔ 18جولائی2013ء کے جنگ اخبار میں آپکا کالم ’’جاوَ عدالتوں میں جاؤ ‘‘ ۔بلوچ بھی یہی کہتے ہیں کہ جاؤ عدالتوں میں جو ملزم ہے اسے پھانسی دو ، سزا دو چاہے وہ صحافی ہے ، اسٹوڈنٹس ہیں ، استاد ہیں ، وکلاء ہے یا خواتین اور بچے ہیں سب کو عدالت میں لے آؤ ان پر مقدمات چلاؤ ۔ دنیا کو بتاؤ اور نکے لواحقین کو بتاؤ جو سالاسال پریس کلبوں کے سامنے بیٹے ہیں کہ آپ کے پیاروں نے یہ غلط کام کیا ہے۔ یقیناًتمام مکاتب فکر کے بلوچ جو آج اسی فوج کے زیر تسلط ہیں جس نے ہزاروں بنگالیوں کو قتل و انکی عصمت دری کی۔ان تمام بلوچوں پر بھی ایک الزام ہے جو سچ بھی ہوسکتا ہے وہ ہے پاکستانی قبضہ و غلامی کے خلاف اپنی آفاقی حق کی فریاد۔آپکے قانون میں اسے بغاوت و عالمی قوانین میں اسے انسانی حق و اقوام کی حق کہا جاتا ہے جسے اسکا حق حاصل ہے۔اپنی قانوں کی پاسداری کر کے انھیں سولی پر چڑا دیں میر صاحب اس سچائی کو بیان کرنے کے لیے صحافت سے ایمانداری شرط ہے اب شاہ والی صحافت سے کسی معاشرے میں بھی کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے اور نہ حق و سچائی کی توقع کی جاسکتی ہے ویسے بھی پاکستان میں صحافت باقی تمام اداروں کی طرح جیب بھرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ بحیثیت ایک انسان اور انسانی احترام کے لیے آپ سمیت تمام صحافی برادری و دانشوروں کا قلم کے ساتھ انصاف کا تقاضہ یہی ہونا چائیے کہ غیر جانبدار صحافت کو قائم رکھیں جو انسانی اقدار و مظلوم اقوام چائیے وہ کوئی بھی ہواسکے ساتھ ہونے والی ظلم و جبر کو قلم کی زبان دے سکے۔صحافت کی وفاداریاں سچائی کے ساتھ اور صحافی کے قلم کی سیاہی اخلاق اور انسانیت کے لیے الفاظ کو پروندتے ہوئے بلند و بالا رتبہ پھاتی ہے نہ کہ حاکم وقت و طاقت ور و سامراج کے لیے ایک صحافی کے لیے پہلے اس کا قلم سچائی،انسانیت اور پھر دنیاوی بے معنی سرحدیں۔۔ ***
Posted on: Thu, 12 Sep 2013 16:05:35 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015