ممبرز میں آج آپ سے اپنا ایک ذاتی - TopicsExpress



          

ممبرز میں آج آپ سے اپنا ایک ذاتی تجربہ شیئر کرنا چاہتی ہوں‘ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ شروع کہاں سے کروں۔۔ اس واقعے نے مجھے کئی دن تک اداس رکھا‘ اپنوں کی بے حسی‘ غربت ‘ مجبوریاں اور موذی بیماری ضابر سے ضابر انسان کو بھی توڑ دیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ آج سے ٹھیک ٩ دن پہلے پیش آیا۔۔ واقعہ کچھ یوں ہے۔۔۔ میرے پاوں میں موچ آنے کی وجہ سے مجھے ڈاکٹر نے ڈرائیونگ سے منع کر دیا‘ مجھے اپنی امی کے ساتھ ایک ضروری کام سے جانا تھا‘ سو ہم تیار ہو کر باہر مین چوک میں آ گئے تا کہ کوئی ٹیکسی یا آٹو وغیرہ لے سکیں‘ باہر کافی رش تھا اور ٹیکسی والے اپنی ازلی بے نیازی دکھا رہے تھے کہ اچانک ہمارے قریب ایک آٹو رکشہ آ کر رکا‘ ماں جی نے اس سے کرایے وغیرہ کی بات کی تو رکشہ ڈرائیور جو کہ عمر سے کافی بزرگ لگ رہے تھے اچانک رو پڑے اور کہا کہ باجی آپ بیٹھ جائیں جو آپ کی مرضی ہوئی وہی دے دینا بس میری بیٹی کے لیئے دعا کر دیں‘ میں اور ماں جی پہلے تو حیران ہوئے پھر اسی سواری میں بیٹھ گئے‘ کچھ دیر بعد ماں جی نے اس بزرگ کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ بابا جی آپ کی بیٹی کو کیا ہوا ہے؟ یہ سوال گویا نمک ثابت ہوا جو اس بزرگ کہ زخموں کو تازہ کر گیا۔۔ بابا جی نے بآواز بلند رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے۔۔ میری بیٹی رابعہ کو گردوں کا کینسر ہے‘ اسکی عمر ١٩سال ہے ‘ میں غریب آدمی ہوں یہ رکشہ بھی کرایے کا ہے‘ بہت مشکل سے گزارہ چلتا ہے۔۔ ہسپتال والوں نے ساڑھے چار لاکھ روپے مانگے ہیں‘ اور آپریشن کی تاریخ دی ہے۔۔ ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈونس جمع کروانے ہیں ‘‘ میرے گھر کی ہر چیز بک چکی ہے ،حتی کہ بچیوں کے ان سلے کپڑے بھی بک چکے ہیں۔۔ رشتے داروں نے ہمارے لیئے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لیئے ہیں، کہاں جاوں؟ اپنی رابعہ کو کیسے زندگی دوں؟ ( اب بزرگ با قاعدہ ہحچکیوں سے رو رہے تھے اور ایک ہی دعا مانگ رہے تھے کہ میری بیٹی کو زندگی دے دے میرے مولا) بابا جی نے بتایا کہ سب کچھ بیچ کر بھی ابھی تک ضرف ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے جمع ہو سکے ہیں۔۔۔ ہماری منزل قریب آ چکی تھی‘ ماں جی نے بابا جی کو دلاسہ دیا‘اور دعا دینے کے ساتھ ساتھ حسب توفیق مدد بھی کی،، رکشہ میری نظروں سے دور ہوتا جا رہا تھا‘ اور ان بابا جی کہ آنسو میرے دماغ پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہے تھے۔۔۔ رابعہ کی آخری سانسیں لیتی زندگی‘ اس کے باپ کی لا چاری‘ اپنوں کی خود غرضی اور غربت۔۔ ایک کے بعد ایک خیال میرے دماغ کو سن کر رہا تھا۔۔ معزز ممبرز !! کیا ہمیں یہی درس ملا ہے کہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دروازہ بند کر لیں؟ مجبور کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا ہمارے معاشرے میں رواج بنتا جا رہا ہے۔ خدارا اپنے ماحول میں موجود ایسے کرداروں کی مدد کیجیے جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔ خدا کے دیے ہوئے رزق سے دیا کرو‘ تم نے کون سا اپنے پاس سے دینا ہوتا ہے۔ تحریر ۔۔۔ مس نور
Posted on: Tue, 19 Nov 2013 20:22:28 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015