پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ - TopicsExpress



          

پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز 1950 میں ہوا تھا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے عالمی برادری کے دیگر چند ممالک کے ہمراہ 1950 کے تائیوان، چین تنازعے کے فوری بعد چین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات آئندہ سال 31 مئی 1951ء میں قائم ہوئے۔ پاکستان نے چین کو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز کا کا رکن بننے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ اس کے اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کے قیام اور تعلقات کے فروغ کےلیے اہم خدمات انجام دیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں گرم جوشی 1962 کی چین- بھارت سرحدی جنگ کے بعد پیدا ہوئی۔ بھارت کو اپنا روایتی دشمن سمجھنے والی پاکستانی قیادت نے چین سے تعلقات بڑھاتے ہوئے اسے خطے میں ایک متبادل طاقت کے طورپر ابھرنے میں مدد فراہم کی تاکہ بھارتی اثر و رسوخ کا راستہ روکا جاسکے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی چین نے پاکستان کو خاصی مدد فراہم کی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور اقتصادت رابطوں میں مزید گرم جوشی پیدا ہوئی۔ 1970 میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی وزیرِخارجہ ہینری کسنجر کے خفیہ دورہ بیجنگ کے انتظامات ممکن بنا کے چین اور مغربی دنیا کے درمیان براہِ راست رابطوں کو ممکن بنایا جس کے نتیجے میں 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن چین کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے مغربی راہنما بنے ۔ 1978 میں چین اور پاکستان کے درمیان پہلے اور اب تک کے واحد زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں میں اضافہ ہوگیا۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں روسی افواج کے داخل ہونے کے بعد چین نے پاکستانی موقف کی حمایت کرتے ہوئے خطے سے روسی انخلاءکا مطالبہ کیا۔ گوکہ افغان جنگ کے پورے عرصے کے دوران چین بظاہر غیر جانبدار رہا تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ بیجنگ نے اس پورے عرصے کے دوران اسلام آباد کے راستے افغان گوریلوں کو روس کے خلاف خاموش مدد بھی فراہم کی۔ گزشتہ 20برسوں کے دوران چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور کئی مشترکہ فوجی اور اقتصادی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں 2001 میں الخالد ٹینک، 2007 میں لڑاکا طیارے "جے ایف -17 تھنڈر"، 2008 میں "ایف-22 پی" فریگیٹ اور "کے-8 قراقرم" ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کئی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرچکی ہیں جن میں سب سے اہم رواں سال ہونے والی فوجی مشق تھی جس کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون کا فروغ قرار دیا گیا تھا۔ دفاعی تعاون کی انہی سمجھوتوں کی بدولت 2007 میں چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان جوہری توانائی کے میدان میں تعاون کے سمجھوتے پر 1984 میں دستخط کیے گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک اس معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آرہے ہیں۔ 1999 میں چین کی جانب سے چشمہ میں300 میگا واٹ کا جوہری بجلی کا پلانٹ پایہ تکمیل کو پہنچا جبکہ اسی سلسلے کے ایک اور پراجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اسی عرصے میں چین نے پاکستانی شہر خوشاب کےنزدیک واقع جوہری مرکز کی تعمیر میں بھی تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ رواں سال امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بھارت کی طرز پر سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تبادلے کا معاہدہ کرنے سے انکار کے بعد چین جوہری توانائی کےلیے دو پلانٹس کی تعمیر میں پاکستان کو مدد فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کرچکا ہے جس کے معاہدے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ پاکستان کے خلائی پروگرام میں چینی ٹیکنالوجی اور تعاون کا بڑا عمل دخل ہے۔ 1990 میں پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک چینی اسٹیشن سے ہی خلاء میں بھیجا گیا تھا جس کے بعد سے باہمی تعاون کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسکے علاوہ بھی دونوں ممالک کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قریبی تعاون کے کئی منصوبے جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون کا یہ سلسلہ اقتصادی میدان میں بھی جاری ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی، دفاعی اور معاشی لحاظ سے اہم ترین بندرگاہ گوادر بھی چینی تعاون سے ہی تعمیر کی گئی ہے۔ 2002 میں آغاز کیے گئے 248 ملین ڈالر کے اس مشترکہ پروجیکٹ کیلیے چین نے 198 ملین ڈالرز فراہم کیے جب کہ بندرگاہ کی تعمیر کے تمام مراحل میں بھی چین کی تیکنکی اور افرادی مدد بہم رہی۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم اس وقت 7 ارب ڈالرز سالانہ ہےجسے 2011 تک 15 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ رواں سال کے ابتدائی دس ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم میں29 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں پاکستانی برآمدات میں ہونے والے اضافے کی شرح 6ء27 فی صد رہی۔ دونوں ممالک کے درمیان 2008 میں "فری ٹریڈ معاہدے" پر دستخط کیے گئےتھے جس کے تحت چین پاکستان میں نئی صنعتیں لگارہا ہے جبکہ پاکستان کو چین میں یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے کسی بھی ملک کے ساتھ کیا جانے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاہدہ ہے جس پر مکمل عمل درآمد اور اسکے اگلے فیز کے آغاز پر بھی چینی وزیراعظم کے حالیہ دورے میں مذاکرات کیے جائیں گے۔ 2008 میں ہی دونوں ممالک نے قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ریل روٹ بچھانے پر بھی اتفاق کیا۔ ریل کے اس رابطے سے چینی مصنوعات کو براہِ راست گوادر پورٹ تک رسائی مل جائے گی۔ اس کے علاوہ چین اپنے صوبے سنکیانگ سے منسلک پاکستانی علاقے گلگت بلتستان میں بھی ہائی ویز اور کئی دیگر پروجیکٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چین پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بے شمار منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کا حجم گزشتہ کچھ برسوں میں 3ء1 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے۔ ان اہم ترین پروجیکٹس میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 500 ملین ڈالرز کی مالیت سے قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈنگ اور پاک چین فرینڈ شپ سینٹر کی تعمیر شامل ہے۔ سے مدد کی تھی۔ Chinese Mega Projects in Pakistan Chinese are entrusted with the responsibility to commission Kohala Power Project at a cost of US$ 2.155 billion with a capacity to generate 1050 MW of electricity. The first major initiative in this regard was the setting up of Heavy Mechanical Complex at TaxilaThe construction of KKH Highway, boosting trade between the two countries. Currently China is working on a plan for the up-gradation of KKH at an approximate cost of $500 million Construction of 165 Km Jaglot-Skardu and 135 KM Thakot-Sazin roads in Gilgit-Baltistan at a cost of Rs.45 billion. China would pay 85% of the cost while Pakistan will contribute 15%. A rail link between the two countries is also envisaged to be built.Currently the Chinese are working on 15 mega projects in the energy sector in Gilgit-Baltistan and Azad Kashmir. A very significant project in hand is the upraising of the Mangla Dam reservoir by sixty feet. As part of resettlement of the dam affectees, the Chinese firm, International Water and Electric Corporation ( CIW&EC) is also working on the construction of a bridge over Jhelum river in the same area. Another very vital project is Neelum-Jhelum Hydroelectric Power Project which aims at diversion of the water of Neelum river through a tunnel into Jhelum river, at a cost of US$12.6 billion. The Chinese are also entrusted with the responsibility to commission Kohala Power Project at a cost of US$ 2.155 billion with a capacity to generate 1050 MW of electricity. China’s Three Gorges Project Corporation is constructing Diamir-Bhasha Dam on the Indus river with a total investment of US$ 12.6 billion. In addition to these undertakings the Chinese firms are also working on six other mega power projects in Gilgit-Baltistan that include : US$7.8 billion Dasu Hydropower Project, US$ 70 million Phandar Project, US$ 40.01 million Bashu Hydropower Project, US$ 44.608 million Harpo Hydropower Project and US$ 6 billion Yulbo Hydropower Project. China is also investing an amount of US$ 300 million in housing, communication sectors. The Indians are very wary of Chinese involvement in development projects in Gilgit-Baltistan and Azad Kashmir and view it as a calculated move to build Chinese influence in these areas, a charge vehemently dismissed by China. China is also helping Pakistan in the nuclear power sector. A nuclear power plant at Chashma with a power generating capacity of 330 MW of electricity has already been completed and integrated with the National Grid recently and two more similar plants are scheduled to be completed by 2016-17. The agreement for these projects was signed on June 8, 2010 during President Zardari’s visit to China, notwithstanding the fact that US raised objections on the nuclear cooperation between the two countries. The Chinese brushed aside the apprehensions on this account by informing the Nuclear Suppliers Group (NSG) during its meeting at Christchurch, of its decision to build Chashma IV and V in Pakistan. In the backdrop of An arrangement for soft Chinese loan to fund the construction has also been inked. The participation of China in exploiting copper reserves at Sandak and the development of Gawadar Port in Balochistan, though not liked by some regional and international powers, are undertakings of immense economic benefit to the people of the province and the overall development of Pakistan. The trade between the two countries has also been expanding. China is the fifth largest source for Pakistani imports. The bilateral trade between the two countries touched US $7 billion mark in 2008.Under a five year programme lunched in 2006 this volume is proposed to be enhanced to $ 15 billion by 2012. In the past few years, the Chinese have made an investment of US$ 1.3 billion in Pakistan. A number of Chinese companies are working in the oil and gas, IT, Telecom, Engineering, and mining sectors.
Posted on: Thu, 04 Jul 2013 07:21:33 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015