کیپٹن عزیز کی بہادری--- اس وقت - TopicsExpress



          

ISI

کیپٹن عزیز کی بہادری--- اس وقت سیزفائرلائن کی صورتحال بہت خراب تھی-روزانہ بھارتی مورچوں سےآزادکشمیر کی آبایوں پر فائرنگ ہوتی تھی-جواباَہم بھی اپنی توپوں کے مںہ کھول دیتے-جس سے کبھی کبھار تھوڑابہت جانی نقصان بھی ہوجاتا- ایک رات بھارتی فوجیوں نےسیزفائرلائن کراس کی اور آزاد علاقے میں آکر اپنی چوکی قائم کردی-دوسرے روز جب ہمیں خبرہوئی تو ہم نے جوابی تیاریاں شروع کردیں-حالات بہت خطرناک صورتحال اختیار کر رہے تھے جس سے خدشہ تھاکہ کہیں یہ جڑپیں پورے علاقے کو جنگی لپیٹ میں نہ لے لیں-اسی شام میں ٹہلتا ٹہلتادشمن کے علاقے میں چلا گیا-ادھر سے میرے پھیروں می فائرنگ کی گئی تو میں نے ھاتھ اوپراٹھائے اور تیزی سے بھارتی مورچوں کی طرف بڑھنے لگا-یہ دیکھ کر ایک ہندو میجر نےمیگا فون پرمجھ سے پوچھا تم کون ہو؟اور ادھر کیوں آرہے ہو؟ میں نے چیخ کر کہا میرا نام 'رام لال' ہےِانڈین انٹیلی جنس میں آفیسر ہواور آفیشل ڈیوٹی پر پاکستان گیا تھا-یہ سن کر میجر مورچے سے باہر آیااور میری تلاشی لےکر مجھے کیمپ میں لے گیا-جہاں مجھے میس کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ساتھ ہی میری شناخت کے لیے دہلی پیغام بھیج دیا گیا-یہ ایک بہت ہی خطرناک کھیل تھاجس میں میری جان جانے کا سو فیصد امکان تھا، لیکن ایک غیر مرئی قوت میراے ساتھ تھی-اس وقت مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ لوگ میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے- شام کو مجھے ڈائننگ یال میں لایا گیا- ہال ہندو آفیسرز سے بھراہوا تھا مجھے بریگیڈکمانڈ کے سامنے بٹھا دیا گیا- اس نے دیکتھے ہی میرا انٹرویو شروع کر دیا- اس کے لہجے سے یون محسوس ہوا جیسے اسے میری اصلیت کا علم ہوچکا ہے لہٰذا میں نے مزید جھوٹ بولنے یا رسک لینے کے بجائے نیپکن کھولتے ہسئے کہا میرا نام کیپٹن عزیز ہے- نائنتھ عباسیہ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتا ہوں اور آپ سے مذاکرات کے لیے آیا ہوں- میرے اس انکشاف سے جونیئر آفیسرز ک ہاتھوں سے چمچ پھسل کر پلیٹوں میں گر گئے اور وہ غصےسے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے-بریگیڈئر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی سالن کا ڈونگا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا میرا نام بریگیڈیئرجسونت سنگھ ہے-تم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی-کہاں کے رہنے والے ہو- میں نے ڈونگا پکڑتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا،'چکوال'-ہوں بریگیڈیئر نے ہنکارہ بھرا اور کہا پھر تو تم میرے 'گرائیں' ہوئے۔ مین 'بھون' کا رہنے والا تھا-تقسیم کے بعدادھر آگیا- اب چکوال کیسا ہے ؟ پھر چکوال کی باتیں شروع ہو گئیں- وہ تقریباَ گھنٹہ بھر اپنے بچپن،اپنی سکول لائف پھر اپنے کیرئر کے ابتداَی دنوں اور پرانے ساتھیون کی باتین کرتا رہا-کھانے کے بعد ہم نے چائے بھی پی وہان بھی یہی گپشپ ہوئی رات گَے جب ہم اصل 'ٹاپک پر آئے تو میں نے اسے سیزفائرلائن کی صورتحال ،بھارتی قبضے اور اسکے نتائج کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا-جس سے اس نے اتفاق کرتے ہوئے اپنے جوانون کو پرانی پوزیشن پر واپس لانے کی یقین دہانی کرادی- دوسرے روز مجھے باعزت طریقے سے واپس بھیج دیا گیا -میں اپنی یونٹ میں آیا تو مجھے گرفتار کر لیا گیا -پھر ایک لمبا ٹرائل ہوا-جس میں میں نے ساری واردات کھول کر بیان کر دی-چند روز بعد جب بھارتی دستے پسپا ہوکر پرانی پوزیشنون پر چلے گئے تو میرے سینئرز کو میری بات کا یقین آگیا لہٰذا میری رپورٹ جی ایچ کیو بھیج دی گئی جہاں سے ۲۳مارچ ۱۹۶۰ کو میری پروموشن کا آرڈر آگیا- پروفیسرعبدالعزیز سے اقتباس ---کتاب 'گئے دنوں کے سورج (شکریہ برائے ترسیل: ملک صاحب) آغا
Posted on: Fri, 23 Aug 2013 16:28:54 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015