محب وطن پاکستانی لازمی پڑھیں اور - TopicsExpress



          

محب وطن پاکستانی لازمی پڑھیں اور شیئر کریں ، اردو میں مواد پوسٹ کے آخر میں ہے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر کالاباغ ڈیم کے مسئلہ کا عملی حل Smart Hydro Kinetic Power Generation Turbines https://facebook/video.php?v=482233138584522&set=vb.328165037324667&type=3&theater Worlds reliable & sustainable power generation technology.Now every one can generate own power from run of rivers, canal or sea. NO NEED TO BUILD DAMS Alternate and Immediately Solution of Kalabagh Dames Energy Crisis On the Feature Now, * No Need to Build Costly Dams. * No Need to Wast Time for Consternation Of Dams. * No Need to Block National Investment On Dams. * No Risk is for Power Shut Down Chances. * No Need Maintenance Requirements for Next 10 Years. * No Chance of Risk in Floods Satiation or Over Flow of Water. * No Chance is here to Project Flop. * Easy Total Project Movement Revere to Sea as Tidal Energy Turbine. * Warranty 3 years to 90years on the Projects Requirement. * Power Generation Cost By Each Electricity (KWh) Units Constant Price Rs: 16 Rupees Just (.14cents) for Next 25 Years include all maintenance charges Investment Return in 4 to 7 Years. * Worlds Cheapest Power Generation Source. * Worlds Efficient Power Generation Equipment / Source in Clean Energy / Renewable Energy Resources. * Worlds Hi-Efficient Power Generation Equipment for Regular Power Generation. * World,s Easy & Quickly Installation from All Type Power Generation Systems Installation. * Power Generation Capacity 1.5 K.V.A to 500 Gaga Watts on the Synchronization. * Projects Financing Facilities are Available for Pakistan. * Tested & Citified on Technology , Reliability , Regular Capacity of Power Generation, Martial Analyzing, Lifespan and Critical Value from IEC (Germany, U.S.A, UK) IREC (Germany) U.S Department of Energy UK Department of Energy European Technology Management (UK & Germany) Pakistan Air Force ( Aeronautical Engineering Department -Risalpur) Pakistan Institute of Space Technology Islamabad ============================================== River characteristics For the safe and efficient operation of the Smart Hydro Power turbine, following data should be considered: River Flow Rate at Maximum Power Output: 2.75 m/s Minimum River Flow: 1.5 m/s Maximum River Flow: 3.5 m/s Minimum River Depth: 1.8m Minimum Width: 2 meters Maximum recommended depth: 10 meters (generator rating) Define riverbed type: Sand Mud Fine gravel Medium-sized gravel Boulders (large rocks) ==================================================== All Rights Received from Contact here for Pakistans Energy Crisis Issues Engr.Rashid Malik Project Coordinator for Pakistan - Renewable Power Generation Development · WORLD ENERGY CRISIS MISSION Humberg - Baden-Wurttemberg , Germany E-mail: eng.rashidmalik@gmail Skype: engr.rashid.malik Cell: +923007119454 , +9231570757 Address: *Awan Yandalux Pakistan Pvt Ltd, Sialkot - Pakistan* *Al-Awan Opp Side Saga Sports, 7 km Daska Road Sialkot 51310 Pakistan Telephone:+92 (52) 3575282 Fax; +92 (52) 3575283 کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر کالاباغ ڈیم کے مسئلہ کا عملی حل Smart Hydro Kinetic Power Generation Turbines. کوئی بھی پاکستانی شہری بغیر ڈیم تعمیر کیئے نہری، دریائی یا سمندری پانی کے بہائو سے نہ صرف اپنے استعمال کیلئے بجلی جنریٹ کر سکے گا بلکہ اس سے بجلی کمرشل لیول پر تیار کر کے ملکی سطح تک فروخت کرکے کاروباری آمدن حاصل کر سکے گا حکومت پاکستان سے این او سی ہمیں مل گیا ہے اب کوئی بھی پاکستانی شہری بغیر ڈیم تعمیر کیئے نہری، دریائی یا سمندری پانی کے بہائو سے نہ صرف اپنے استعمال کیلئے بجلی جنریٹ کر سکے گا بلکہ اس سے بجلی کمرشل لیول پر تیار کر کے ملکی سطح تک فروخت کرکے کاروباری آمدن حاصل کر سکے گا سمارٹ ہائیڈرو پاور جنریشن ٹربائینز ساٹھ سال کے عرصہ تک بجلی کو متواتر جنریٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور 90 سالوں تک ان کے میٹیریل پانی میں خراب نہیں ہو سکتے سمارٹ ہائیڈرو پاور جنریشن ٹربائینز کے پراجیکٹس کی کل لاگت سولر انرجی پراجیکٹس سے کم ہے اور اس سے 18 روپیہ فی یونٹ بجلی اگلے 60 سال تک بشمول تمام اجراجات کے ساتھ ایک مستقل قیمت پر پیدا کرتی رہے گی جو بجلی کی سالانہ بڑھتے ہوئے نرخ اور دنیا بھر کے تمام تر رینیوایبل اور کنویکشنل انرجی سورسز کی نسبت انتہائی سستی ہوگی اس سے ملک سے جلد انرجی کرائسس کا خاتمہ ہوگا اور عوامی، قومی اور سرکاری سطح پر معاشی خوشحالی کا آغاز ہوگا سمارٹ ہائیڈرو پاور جنریشن ٹربائینز کے حوالے سے ٹربائین کا فنی تعارف ، کارکردگی کی تفصیلات ، ٹیسٹ سرٹیفکیشن، ان کے استعمال سے قومی سطح کے فوائد اور عرصہ چار سال سے ان سمارٹ ہائیڈرو پاور جنریشن ٹربائینز کو متعارف کروانے کے سلسلہ میں جن دشواریوں اور نامسائد حالات کو ہم نے فیس کیا ہے ان کا ذکر شامل ہے میں تہہ دل سے اپنی ٹیکنکل ٹیم اور ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جن نے پاکستان کی بہتری اور ترقی کیلئے بھرپور ساتھ دیا جن میں خصوصی تعاون ورلڈ انرجی کرائسس مشن کے ارکان • Mr.Malik Nadeem Ahmad Awan• Director for Pakistan ETM-European Technology Management , Germany Ms. Noshi Malik • Managing Director Solyndra Inc , U.S.A • Mr.Brain Harrison • Executive Director Solyndra Inc , U.S.A • Ms.Engr.Pari • Consultant at Marine & Hydro Kinetic Energy U.S Department of Energy, U.S.A • Mr. John Deutch• MIT Chemist U.S Department of Energy, U.S.A • Mr.Ram Shenoey • Board Member U.S Department of Energy, U.S.A • Mr. Danial Yergin• Assistant Secretary Renewable Energy Resources U.S Department of Energy, U.S.A • Ms. Dr. Mheen Faruqi• Environmental Engineer at U.N.S.W • Ms. Salma Malik• Director for United Kingdom ETM-European Technology Management , U.K • Ms. Marlene Brown• Director at NMSEA • Ms.Dr. Jan Hamrin• President at California RPS Program • Ms. Hope Corsair • Program Director Renewable Energy Engineering University of Oregon, U.S.A • Ms.Lisa M.Danieal• Executive Director National Renewable Energy Laboratory , U.S.A کا ہے جو ان دنوں پاکستان میں وزٹ پر آئے ہوئے ہیں اور پاکستان کےانرجی کرائسس کے حل کے لئے کاوشیں کیں سمارٹ ہائیڈرو کائینیٹک ٹربائینز کے پراجیکٹس کی حکومت سے منظوری لی یہ ایک تلخ حقیقت مگر آپ کے پاس اس مسئلہ کو حل کرنے کی کیا تجویز ہے؟ جب کہ بین القوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کو انڈیا کی اجازت کے بغیر نئے آبی ڈیمز بنانے کیلئے مالیاتی فنڈز پر پابندی عائد کر دی ہے اور پاکستان کی گورنمنٹ کے پاس سرمایہ کاری کی سہولت اور گنجائش ہی نہیں- کیونکہ پاکستان انڈیا کی سرذمین سے آنے والے دریائی پانی پر انحصار کرتا اور انڈیا اس پانی پر دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح اپنے ملکی وسائل کا حق رکھتا ہے جس سے پاکستان بین القوامی معاہدے کے مطابق تب تک ان آبی وسائل سے استفادہ کر سکتا ہے جب تک انڈیا کو ان آبی وسائل کی اپنے ملک کی ضرورت نہیں پڑتی- اس ضمن میں پاکستان کو پانی کی فراہمی کا مقدمہ بهی انڈیا پاکستان کے خلاف اقوامِ متحدہ میں جیت چکا هوا ہے_ پاکستان کی سب سے بڑی بد قسمتی میں یہ حقیقت بهی شامل ہے کہ پاکستان اپنے دریاءوں کے پانی میں موجود دنیا بهر کے سب سے سستے اور پائدار توانائی کے ذخیرے سے کوئی فائیدہ اپنے ملک کیلئے حا صل کرنے کی بجائے اُس توانائی کو سمندر میں پهینک کر نہ صرف ضائع بهی کر رہا بلکہ اُسی پانی کے حصول کیلئے انڈیا کو ایک خطیر رقم بهی اُسی پانی کے ضمن میں دے رہا هے_ مذید یہ کہ پاکستان کی انڈیا کے ساته سنده طاس معاهده کی ناکامی اور انڈیا کی اُسی پانی سے اپنے ملک کیلئے هائیڈرل انرجی سے مذید ضروریات کیلئے ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ و جدل کے آثار اور خدشات واضع هیں- دریائی پانی کی فراهمی کی بندی کے بعد پاکستان کی زرعی ذمینیں بنجر ہو جائیں گی جو ملک اِس وقت لوڈ شیڈنگ کے اندهیرے میں ڈوبا ہوا ہے آنے والے وقت میں بدترین قحت سالی کا شکار ہو جائے گا _ اگر آنے والے وقت کو فراموش کر کے سمندرسے توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع نہ اپنائے گئے ، توانائی کا وسیع پیمانے پر حصول کر کے سمندری پانی کو کاشت کاری کے قابل بنا کر ملک بهر میں کاشت کاروں کی ضروریات کیلئے فراہمی کا بندوبست اگر نہ ہو سکا تو پاکستان کا ذمینی پانی تین سال کی قلیل مدت میں ختم هو جائے گا _ ابهی عوام کو شمسی توانائی اور بائیو گیس پر چلنے والے ٹیوب ویل کی پیشکشیں حکومت عوامی رجحانات پر کر رہی ہے لیکن تب کیا ہو گا جب ذمین کے اندر ہی پانی نہ رہے یا پانی کی ستح بہت نیچے چلی جائے تو وهاں مذکورہ متبادل حل بهی نا کام ہیں_ اگر حل نہ ملا تو ایتھوپیا حیسے خشک ، بنجر ملک کے باشندے بن کر ذلت اور سسکتی ہوئی موت کیلئے تیار رہو میں نے تو جواب اور حل ڈھونڈ لیا ہے ۔ اب آپ بھی حل ڈھونڈیں جو حکمران آج کے اس دور میں عوام کو پینے کےصاف پانی کا ایک گلاس نہیں فراہم کرسکتے کیسے ممکن اس پانی کی قلت کے دور میں آپ کے ہمدرد ہوپائیں یہ حکمران وہ طبقہ ہے جس نے اپنی اپنی حکومت کو قائم رکھنے کیلئے آبی وسائل اور ان سے منسلک حقائق سے عوام کو لا علم رکھا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جو جو حکمرانوں نے کرپٹ پالیسیاں سوڈان میں اپنائیں ہمارے سیاستدان، حکمران بھی انہی پالیسیوں پر قائم ہیں حالات اس قدر ابتر ہوتے جارہے ہیں کہ پانی کے تنازع پر پاک بھارت جنگ یقینی ہے یہاں کے جمہوری حکمران ان جنگوں میں اپنی کرپشن کو بچانے کو پوری قوم کو ہلاک کرنے اور افواج پاکستان کو تباہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں میں نے افریقی ممالک میں دوران قیام قحط اورخشک سالی اور وہاں کےسیاسی نظام کو بہت قریب سے دیکھا ہے، آج آپ لوگوں کی سیاسی وابستگیوں نے آپ کو اپنی اپنی پارٹی کی عزت بچانے پر خاموش کرا رکھا ہے تب کیا کرو گے جب اپنے ملک کو تباہ و برباد کروا کر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے پینے کیلئے پیشاب تلاش کرتے پھرو گے ، تب اس خشکی کے دور میں رونے کیلئے تمہاری آنکھوں میں آنسو تک سے تم محروم رہو گے آپ نے فیس بک پر بہت سی پیچیدہ پہیلیوں اور سوالات کے جوابات دیئے ہیں مگر یہ سوال پاکستان کی بقا کے لیئے ہے ہمارے پاس کالا باغ ڈیم کے مسئلہ کا عملی اور فوری حل ہے جو اپنی جدید ٹیکنالوجی اور آئندہ دور کے لائحہِ عمل کی وجہ پر حکومتِ پاکستان اور عوام ِ پاکستان کی ان توقعات سے بہت بہتر اور مفید ہے جس کی بنا پر ملک دشمن کرپٹ سیاست دان اور نآندیش سرکاری آفیسرز ہمارے مخالف ہوچکے ہیں تاکہ ملکی ترقی نہ ہو پائے ایسے بد عنوان عناصر نے اپنے غیر ملکی ،پاکستان عوام دشمن آقاءوں کی خواہشات اوراپنے ذاتی مفادات کی بناء پر عوام کو اندهیرے میں رکها هوا ہے اس بارے میں ناقابلِ تردید حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں کالا باغ ڈیم نام کے بجلی کی تیاری کے منصوبہ کے موخر(التوا) ہونے کو پاکستان میں موجودہ بجلی کے بحران کی سب سے اہم وجہ سمجها جاتاہے _ گزشتہ چالیس سال سے پاکستان کی حکو متیں اس ڈیم کی تعمیر کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں کیونکہ جس علاقہ میں ڈیم کی تعمیر ہونی ہے وہاں کے مقامی آبادی نے ڈیم کیلئے اپنی املاک اور ذمینیں ڈیم کی تعمیر کے لئیے دینے اور حکومت ِ پاکستان کی طرف سے متبادل ذمینیں حاصل کرنے اور اپنے مقامی علاقہ جات سے ہجرت کرنے پر انکار کرتے ہوئے عدالتی حکم امتناعی پر ڈیم کی تعمیر میں اپنے قانونی حقوق کی وجہ پر حائلِ برحق هیں_ ابتدا سے ہی کالا باغ ڈیم کا منصوبہ عوامی املاک کے پیش ِنظر غلط سروے اور پلاننگ پر ہوا_ اگر حکومت ِ پاکستان اس معاملے کو مقامی لوگوں کے تعاون سے حل کر بهی لے تو حکومت کا قومی خزانہ ڈیم کی تعمیر اور مقامی لوگوں سے املاک خرید سکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا_ ہم جرمنی میں ہائیڈرو پاور جنریشن کیلئے ایسی پاور جنریشن ٹربائنیں بنا رہے هیں جن کواگر کالا باغ مسئلہ کا حل کہا جائے تو بلاشبہ درست ہو گا کیونکہ ۰ یہ ٹربائینیں عام هائیڈروٹربائینز کی طرح ڈیم کے پانی پر انحصار کرنے کی بجائے کسی بهی نہر ، دریا اور سمندر کے پانی کے بہاو کی طاقت پر بجلی تیار کر سکتی ہیں یعنی مہنگے ترین ڈیم بنائے بنا بجلی کی باقاعده اور عملی طریقہ کار پر پیدا وار ممکن اور آزمودہ ہے ۰ یہ پاور جنریشن ٹربائینز کم ولاسٹی والے پانی( ولاسٹی دوعشاریہ پانچ میٹرز سے تین میٹر فی سیکنڈ رفتار) کے مطابق بهی ہیں جو پاکستان کی نہروں ، دریاوں اور سمندر کے پانی کی ولاسٹی کے مطابق ہیں ۰یہ ٹربائینز دواعشاریہ پانچ کلو وواٹس سے لے کر پانچ کلو وواٹس کی آوٹ پٹ کے لیئے فی مائیکرو یونٹ کی بنیاد پر ہیں کہ جو سنکرونائزیش پروسیس پر کئی ٹربائینز انٹرکونیکٹ (آپس میں باہمی جوڑ کر) کئی میگا ، گیگا وواٹس میں بجلی کو پانی کے بہاو کی طاقت سے جنریٹ کروایا جا سکتا ہے یعنی انتہائ کم پیمانے پر بجلی کی پیداواری شرح سے لے کر لامحدود شرح تک ، ایک عام صارف کی ضرورت سے لے کر ملکی اور بین القوامی ضروریات کو با آسانی پورا کر سکتی ہیں ۰یہ ٹربائینز فلوٹ ایبل ہیں جو کم وبیش ہوتے ہوئے پانی کی سطح پر تیرتے کی صلاحیت کی وجہ سے بہترین کارکردگی رکهتی هیں ، یہ ٹربائینز صرف ساڑهے پانچ فٹ پانی کی گہرائی رہ جانے پر بهی دریاوں کے سوکهے کے وقت میں انتہائی کم پانی پر بهی اپنی کارکردگی بر قرار رکهتی ہیں ۰ یہ ٹربائینز عرصہ دس سال سے لے کر عرصہ نوے سال تک اپنے عمده میٹریل اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ پر دنیا بهر کی پاور جنریشن کے مختلف ذرائع کے مقابل اپنی پائداری کی مدت میں ، انتہائی کم تنصیباتی اخراجات پر ، سب سے کم سالانہ مرمت کے اخراجات پر اور طویل مدت پر انتہائی کم لاگت پر بجلی کی پیدا واری صلاحیت رکهنے پر سرِفہرست ہے ۰ اسکو باآسانی نصب کیا جاسکتا ہے ایک عام فہم شخص بهی آسانی سے سٹیل کی تار کے ذریعے اسے نصب کر سکتا ہے ۰کسی خرابی کی صورت میں باقی کی ٹربائینز کام کرتی رهتی ہیں جس سے تنصیب شدہ پروجیکٹ کی بجلی میں لوڈ شیڈنگ ، شٹ ڈاون جیسا تعطل پیدا نہیں ہوتا ، اور با آسانی ٹربائین تبدیل یا مرمت ہو جاتی ہے ۰ہماری یہ ٹربائینز عرصہ پندرہ سالوں سے دنیا بهر کے باون ملکوں میں پرائویٹس اورمختلف گورنمٹس کے پراجیکٹس میں استعمال ہو رہی ہیں جوکہ مصدقہ ریکارڈ پر موجود ہیں -- آج سے عرصہ تین سال قبل پاکستان ائیرفورس (پاکستان ائیر فورس ایروناٹیکل انجینیئرنگ ونگ رسالپور ،خیبر پختون خواہ) کو سات میگا وواٹس بجلی کی جنریشن کیلئے تعارفی طور پر یہ ہائیڈروکائینیٹکس انرجی ٹربائین تعارفی قیمت کے تعین پر پاور جنریشن پروجیکٹس کیلئے مہیا کی تاکہ پاکستان ائیر فورس جیسا ادارہ اپنی تیار کردہ بجلی سے مستفید ہو سکے یہ پراجیکٹ غاذی بروتها نامی نہر( جو اپنے محلِ وقوع سے پاکستان ائیر فورس ونگ کی حدود میں سے گزرتی ہے اور یہ نہر محکمہ واپڈا کے زیرِ تحت ہے) پر نصب ہونا تها جب پراجیکٹ تین سال تک ٹربائینز کو متواتر بالحاظِ کارکردگی ٹیسٹ کرنے کے بعد منظور ہوا تو محکمہ واپڈا نے اس پراجیکٹ کو بغیر کسی فنی اعتراض کے مذکورہ نہر میں نصب کرنے سے روک دیا حالانکہ یہ ٹربائینز پانی کے بہاو میں نہ تو رکاوٹ ڈالتی ہیں اور نہ ہی پانی کی پوٹینشل اور کائنیٹک فورس کو کم کرتی ہیں حالانکہ پاکستان ائیر فورس جیسے مایہ ناز ادارے نے تین سال تک ان ٹربائینز کو مکمل ہر سائینٹیفک ٹیسٹ پر مذکورہ پراجیکٹ کی ٹیکنیکل ڈیمانڈز کے مطابق ٹسیسٹ کیا ہے تادم ِتحریر ہماری ٹربائینز پاکستان ائیر فورس کے پاس موجود ہیں جنکے بارے میں ٹیکنکل ڈیٹا بهی پاکستان ائیر فورس کی تین سالہ ریسرچ پر مبنی هے اسکا مطلب اس ٹربائین کی افادیت،حقیقت اور عمدہ ٹیکنالوجی کے بارے میں پاکستان میں بهی مصدقہ نتائج اور معلومات حکومت کے پاس موجود ہیں اور کوئی بهی سربراہِ مملکت اس کے حقائق سے انکار نہیں کر سکتا اگر یہی ٹربائینز سکهر شہر سے کراچی تک دریائے سندہ میں نصب ہو جائیں تو 11,5000 میگا وواٹس بجلی پیدا هو سکتی ہے یورپین ٹیکنالوجی منیجمینٹ جرمنی نے پاکستان کو واضع آفر کی تهی کہ اگر پاکستان ہائیڈروکائینیٹک ٹربائینز کیلئے اپنے بحری وسائل پر یہ ٹربائینز ایک بڑی تعداد میں لگانے کی اجاذت دے تو پاکستان کو پروجیکٹ رائلٹی کی مد میں مفت بجلی اسقدر ملے گی کہ دریاوں کے خشک ہو جانے پر سمندری پانی کو الیکٹرو ڈی سیلینائزیشن پروسیس کے تحت قابلِ استعمال بنا کر پینے ،کاشت کاری اور صنعتی مقاصد کی لیئے ہیوی ڈیوٹی ٹربائینز لگا کر پورے ملک کی پانی کی ضروریات بهی پوری کر سکتا ہے اور تهر ، بلوچستان اور تمام پہاڑی علاقہ جات میں ایسی جگہوں تک پانی فراہم کر سکتا ہے کہ جہاں آج تک پانی نہیں پہنچایا جا سکا اور مکمل پراجیکٹ میں مکمل سرمایہ کاری کی ذمہ داری کی یقین دہانی بهی کروائی لیکن بد نییت حکمرانوں نے اِس عظیم منصوبہ کو کمیشن نہ ملنے ، رینٹل کمپنیوں کو رشوت کی بنیاد پر تحفظ دینے ، عوام پر انڈیا سے پانی کی بندش کا کیس ہارنے کی خبر اور پانی کی مد میں انڈیا کو خطیر رقم کی رائلٹی ادا کرنے کا راز فاش ہونے کے ڈرسے اور آئی ایم ایف کے ڈر اور دهمکی پر اِسے مسترد کر دیا موجوده حکومت اپنے ذاتی مفادات کیلئے چائنه کی نا اهل سولر کمپنیوں سے کمیشن ، رشوت وصول کرنے کیلئے کثیر ملکی سر مایه کو سولر انرجی کے ایسے احمقانه پراجیکٹس میں ضائع کرنے لگی هے که جو پراجیکٹس دن میں صرف پانچ گهنٹے دوپہر کے وقت بجلی پیدا کرئیں گے نه تو رات کیلئے ان میں پاور سٹورج بیٹریز هیں اور نہ ہی پاکستان کے موسم کے مطابق ان میں موجود سولر پینلز ریگولر پاور مقامی دهوپ،موسم کے مطابق مہیا کرسکتے ہیں نتیجہ یہ کہ شام چار بجے سے اگلے دن گیاره بجے (4pm to next day 11am) تک عوام واپڈا کے رحم و کرم پر (جہاں کی کهوتی ، اوتهے آ کهلوتی کی مثال پر) پهر زیرو پوائنٹ پر آکر پهر اپنے هی ذاتی پاور جنریٹرز کو ہی استعمال کرے گی عوام یہ یاد رکهے کہ یہ سارے سولر پراجیکٹس سے حاصل هونے والی بجلی نیشنل گریڈ کی اس بجلی میں شامل ہو جانی ہے جو رینٹل پاور کمپنیوں سے حاصل ہونی ہے اس سے صرف رینٹل پاور کمپنیوں کے پاور جنریشن سسٹم سے اضافی لوڈ میں کمی آئے گی دوسرا مضحکہ خیز لیکن عوام کے کیلئے نقصان دہ پہلو کہ ہیوی فیول پر چلنے والے رینٹل پاور جنریشن سسٹم سے بہت سا اضافی لوڈ ہٹا دینے سے بهی ان کی فیول کنزمپش(اخراجات) پر کوئ خاص بچت نہی ہوتی، اور جب رات کو صارفین نے واپڈا کو مجبوری کے تحت استعمال کرنا ہی ہے تونہ صرف دن کے وقت کے فیول چارجز صارفین نے ادا کرنے ہیں بلکہ ایسے احمقانہ سولر پراجیکٹس کی تنصیب کے اجراجات بمعہ سود کے اور گزتے وقت کے ساته اسکی مرمت کے اخراجات بهی عوام نے هی اپنے ملک کو قرضہ میں پابند کروا کر ادا کرنے ہیں نا کہ اس وزیر اعظم نے جو اپنی آمدن کا سالانه ٹیکس صرف پانچ ہزار روپیہ دیتا هو ہماری قوم وه بد نصیب اور نا اندیش قوم هے جو بجلی کےیونٹس پرسالانہ تیس فیصد کم از کم اضافہ پر 25 سال کے عر صہ میں هر ایک یونٹ کی 1900سے3100 روپیه قیمت ادا کرتی هے آپکو ایسے سسٹم پر،ایسے لوگوں پر یقین تو هے ،لیکن ان سے آپ فرار بهی نہیں حاصل کر سکتے اب ہم نے اپنی مد د آپ کے تحت ایک ایسا پروگرام عملی طور پر ترتیب دیا ہے کہ جس میں ہماری پالیسیاں درج ذیل ہیں اور بڑی تیزی سے عمل پیرا ہیں کہ ۰ کراچی اور گوادر کا ساحلِ سمندر بحری توانائی کیلئے انتہائی موزوں ترین ہے کہ جسں سے لامحدود توانائی حاصل کی جاسکتی ہے اس بارے میں ہم نے اپنے قریبی ممالک سے بات کی تاکہ ان کی ضروریات پر انکو سستے نرخوں پر بجلی کی سپلائی دی جا سکے اور حاصل شدہ آمدن سے پاکستان کی عوام کو تمام بنیادی سهولیات مفت فراہم کی جاسکیں جن میں مفت بجلی ، تعلیم ،علاج ومعالجہ ، ٹرانسپورٹ، مذہبی فرائض کی ادائیگی کی مد میں آنے والے اخراجات شامل ہیں اور رائلٹی کی مد میں 1400 امیریکن ڈالرز سالانہ % 30 فیصد ہر شہری کو ملیں گے اور اتنی ہی رقم ِاسی تناسب سے پاکستان کی حکومت کو بهی ملتی رہے ۰یہ پاور پراجیکٹ سمارٹ ہائیڈروکائینٹک ٹربائنز، جیوالیکٹرو اور پی یو ٹی یو (پاور یوٹیلائزیشن ٹیکنیک یوننٹس) کے باہمی استعمال پر 11,50000 ( 1150 گیگاوواٹس ) پاور کا ہو گا جس پر کل مالیت 78 ٹریلین امیریکن ڈالرز کا خرچ آئے گا اس بارے میں پراجیکٹ کیلئے بجٹ کا مکمل ِانتظام عملی طور پر ہو چکا ہے ۰اس کے پہلے مرحلہ میں ہم پاکستانی عوام کو مفت لیز پر پی یو ٹی یو سسٹم فراہم کر رہے ہیں( تاکہ دورانِ لوڈ شیڈنگ ان کی بجلی کی ضروریات پوری ہوتی رہیں) اور واپڈا کی بجلی کے استعمال پر آنے والے ِاخراجات سے ریلیف کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے باقائدہ نقد رقم بهی عوام کو دے رہے ہیں تاکہ چوبیس گهنٹے ان کو پروجیکٹ کی تکمیل تک آج سے ہی مفت بجلی کی سہولت میسر ہو جائے ۰چونکہ پاکستان کے بجلی کے گریڈز اور پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی کپیسٹی اتنی نہیں ہے کہ وہ بلا تعطل (اورلوڈ ٹرپنگ اور لوڈ شیڈنگ کے بغیر) بجلی کی سپلائی صارفین کو دے سکیں موجودہ بجلی کی صورت ِحال پر یہ پی یوٹی یو سسٹم نیشنل گریڈز کی بجلی پر سے %40 فی صد لوڈ کو کم کریں گے ہارمونکس سے فلٹرڈ سپلائی دیں گے انفرادی نوعیت کے صارفین کے لوڈ کا پاور فیکٹر بهی بہتر کر کے نیشنل گریڈز کی کارکردگی کو بهی بہتر کر کے نیشنل گریڈز کی آوٹ پٹ کپسٹی میں بهی اضافہ کریں گے مذید یہ کہ موجودہ دور ، موجودہ حالات میں فیول پر چلنے والے رینٹل نوعیت کے بجلی گهروں ، ڈیمز سے اور تهرمل بجلی گهروں کی جنریٹ شدہ بجلی کو کم و بیش ہوتے ہوئے لوڈ سے ضائع ہونے سے مکمل طور پر بچائے گے تاکہ پاور جنریشن میں ہونے والے نقصانات اور فیول کے نقصانات ختم ہو سکیں کہ جسکا حکومت ، پاورجنریشن کمپنیوں اور صارفین کو فائدہ ہو کہ جن مسئلوں کا حل آج تک ناممکنات میں ہی رہا ہے اب یہ حل آذمودہ اور قابلِ عمل ہے آئندہ دور میں پانی اور بجلی کی قلت سے پاکستانی زرعی زمینیں بنجر ہونے کا قوی امکان ہے جس سے بدترین قحط سالی کا یقینی خطرہ ہے کیونکہ دریائی پانی کی بندش کے بعد عرصہ ۳سال کی مدت کے بعد زیرِذمین پانی خشک ہو جائے گا اس ضمن میں ہم اپنے پراجیکٹ کے دوسرے مرحلہ میں سمندری پانی کو بذریعہ ڈی سیلینائزیشن اور ریورس آسمو سس) صاف کر کے پورے ملک کو سپلائی دیں گے بلکہ ِکسان حضرات کو ہائیڈروپونکس ٹیکنالوجی بهی دیں گے تاکہ کم سے کم پانی ، کم سے کم کهادوں کے استعمال پر وه ہر قسم کا اناج ، پهل ، سبزیاں اور فصلیں مضرِصحت زرعی ادویات کے استمال سے پہلے کے مقابلہ میں ایک سے دس گنا زیادہ مقدار میں حسبِ ضرورت کاشت کر سکیں معزز قائرین: ہائڈروپونیکس ٹیکنیک میں ایک خاص قسم کی مٹی کو پلاسٹک کور میں ڈال دیا جاتا ہے اور بیج یا قابلِ افزائش پودے (پنیری) کو عام کاشت کاری کے طریقِ کار پر اس پلاسٹک کور کے سوراخوں میں بو دیئے جاتے ہیں جب اس طریقہ پر کاشت کاری کی جاتی ہے تو فصل کو صرف نمی کی حد تک پانی کی ضروت پڑتی ہے اسی طرح کهاد کی بهی ۸۰فیصد کی بچت ہو جاتی ہے چونکہ اس کو گرین هاوس کی طرح بنایا گیا ہوتا ہے اس لیئے فصلوں پر زہریلی ادویات کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی ، کوئی بهی کسان کسی بهی موسم میں موسمی یا بےموسمی کاشت کاری کر سکتا ہے چونکہ اس طریقہ کاشت کاری میں فصل ایک مضبوط پلاسٹک کور کے گراونڈ پر ایک بلاک کی طرح اگتی ہے اس پر مناسب فاصلہِ اونچائی پر منزل در منزل کئی بلاک اوپر تلے لگا کر کاشت کاری کارقبہ بڑهایا جاسکتا ہے ہایڈروپونک کی ٹیکنالوجی کے بارے میں بہتر عملی معلومات سے استفادہ کر سکتے ہیں اس طریق کار پر آج سے ہی تهرپرکر ، بلوچستان اور پہاڑی علاقہ جات میں کاشت کاری کر کے بنجر علاقہ جات میں کاشت کاری کر کے نہ صرف منافع بخش فصلیں،پهل،اور سبزیاں اگا کر اپنی آمدن کو بہتر کرکے فروغِ زراعت سے مہنگائی میں بهی کمی آئے گی اور زہریلی ادویات سے مبرا غذاوں سے ہیپاٹائٹس کے بڑهتے مرض میں 90 % فیصد کمی آئے گی پاکستان میں پروفیشنل لیول کے پراجیکٹ عرصہ1995 سال سے لگ رہے ہیں اور کاشت کاروں کو ہائیڈروپونکس کے ذریعے تربیت بهی دی جا رہی ہے کوئی بهی پاکستانی شہری یا کاشت کار فی ایکڑ بنجر زمین سے کم از کم 10,000روپیہ پاکستانی رقم سے لے کر 1,25000روپیہ تک ماہانہ آمدن حاصل کر سکتا ہے
Posted on: Mon, 05 Jan 2015 14:35:39 +0000

Recently Viewed Topics




© 2015