پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے - TopicsExpress



          

پکارتی ہوئی پرچھائیوں کے پہرے ہیں فصیلِ جسم پہ تنہائیوں کے پہرے ہیں وہ دے رہا ہے صدائیں مجھے بلندی سے قدم قدم پہ مگر کھائیوں کے پہرے ہیں مِری نظر بھی تھکن آشنا ہے صدیوں سے تِرے بدن پہ بھی انگڑائیوں کے پہرے ہیں نکل کے گھر سے بھرے شہر میں کہاں جاؤں ہر ایک در پہ شناسائیوں کے پہرے ہیں وہ روشنی ہے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہر ایک عکس پہ بینائیوں کے پہرے ہیں وہ بھیڑ ہے کہ کہیں راستہ نہیں ناصر لگی ہے آگ، تماشائیوں کے پہرے ہیں - Empti -
Posted on: Fri, 26 Jul 2013 05:13:32 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015