یہ تحریر ایک ممبر نے بھیجی ہے اس دن - TopicsExpress



          

یہ تحریر ایک ممبر نے بھیجی ہے اس دن جب میں جمعہ کی نماز سے ایک گھنٹہ قبل مسجد پہنچا اور امام کی جائے نماز کے بالکل پیچھے بیٹھا تو مجھے مسجد کے متولی نے کان میں آ کر کہا سر پلیز تھوڑا سے ادھر بیٹھ جائیں یہ پانچ چھے جائے نماز ریزو ہیں ریزو مطلب؟ میں نے پوچھا ہمارے منسٹر آرہے ہیں ۔۔۔اس نے عاجزی سے کہا میں نے سوچا کوئی عام منسٹر ہو گا یعنی کسی عام سے محکمے کا وزیر ہو گا میں چپ کر سائیڈ پر بیٹھ گیا لیکن جمعے کے خطبے سے ٹھیک دس منٹ قبل مسجد میں ایک پولیس والا داخل ہوا اس نے ایک نگاہ پوری مسجد پر ڈالی اسکے ساتھ ہی جو شخص اس پولیس والے کے پیچھے پیچھے داخل ہوا اسے دیکھ کر میرا منہ حیرت سے کھلا رہا گیا وہ شخص کوئی اور نہیں ملائشیا کا وزیر اعظم نجیب رزاق تھا نجیب رزاق کے پیچھے بھی ایک پولیس والا تھا اور ان کے پیچھے دو اور لوگ تھے جن میں ایک ڈپٹی پرائم منسٹر اور ایک ملائشیا کا وزیر بلدیات تھا یہ تینوں لوگ چپ کر آئے اور امام کی جائے نماز کے پیچھے موجود خالی جگہ پر بیٹھ گے انھیں دیکھ کر عوام میں کوئی ہلچل نہ مچی نا کسی نے کوئی نعرہ لگایا نہ کچھ وہ وہاں بیٹھے بالکل عام لوگ لگ رہے تھے پوری مسجد میں شاید میں واحد شخص ہوں گا جس کی کیفیت عجیب تھی میری دائیں جانب پانچ لوگ چھوڑ کر اس ملک کا طاقتور ترین شخص بیٹھا ہے اور وہ انتہائی عاجزی سے بیٹھا قرآن پڑھ رہا ہے طاقتور لوگوں کے ایسے چہرے تو میں دیکھنے کا عادی ہی نہیں ہوں میں نے تو طاقتور لوگوں کے وہ چہرے دیکھے ہیں کہ انھوں نے جس سڑک سے گزرنا ہو وہ سڑک تین گھنٹے قبل بند کر دی جاتی ہے پھر کوئی مرے کوئی جیے،کوئی حاملہ عورت ہو کوئی مریض ہو کوئی جنازہ ہو کوئی بارات ہو سب کے لیے وہ سڑک شجر ممنوعہ ہوتی ہے پھر وہ نام کا طاقتور شخص آتا ہے وہاں سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ گزرتا ہے کم از کم پچاس سے ساٹھ گاڑیاں اس کے ساتھ ہوتی ہیں وہ گاڑیاں سڑک کی دھول مٹی کی صورت عوام کے چہروں پر خاک ڈال کر چلی جاتیں ہیں کہ لو تم نے ہمیں ووٹ دیا تمہارےچہرے خاک کے حق دار ہیں ۔ ملائشیا کے تین طاقتور انسان مسجد میں عام لوگوں کے بیچ بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے اور یہ لوگ صرف دو پولیس والوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے وہ پولیس والے بھی شاید اس لیے تھے کہ یہ لوگ نماز کے مقصد کو آئے ہیں عوام کو ان سے گفتگو کا موقع نہ دیا جائے ورنہ مسجد آنے کا مقصد فوت ہو جائے گا جمعے کے خطبے سے دو منٹ قبل پہلی صف کے ایک کونے ڈونیشن باکس چلایا گیا۔۔۔یہ پلاسٹک کا ایک باکس ہوتا ہے جس کے نیچے پہیے لگے ہوتے ہیں یہ صف کے ایک کونے میں بیٹھے شخص کو تھما دیا جاتا ہے وہ اس میں حسب توفیق کچھ پیسے ڈال کر اسے اگلے کی جانب دھکیل دیتا ہے یوں یہ آگے سے آگے چلتا رہتا ہے اب میری نظر وزیر اعظم صاحب پر تھی بلکہ بہت سے لوگوں کی نظر وہاں تھی کہ یہ کتنا ڈالتے ہیں۔ آپ یقین کریں جب وزیر اعظم صاحب کے سامنے وہ باکس آیا انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا جب ہاتھ باہر آیا تو وہ ایک مٹھی تھی اس مٹھی میں کتنے کا نوٹ تھا کسی کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا وہ مٹھی ڈونیشن باکس کے سوراخ کے پاس جا کر کھلی اور نوٹ ڈونیشن باکس میں جا گرے وزیر اعظم صاحب نے مسجد کو کتنا دیا یہ اللہ جانتا ہے یہ خود وزیر اعظم صاحب یہ سین دیکھ کر مجھے اخبارات میں چھپی تصاویر اور خبریں یاد آ گئیں۔۔۔وزیر اعظم پاکستان کا دس لاکھ کا اعلان،وزیر اعلی کا پانچ لاکھ کا اعلان ۔۔۔صدر صاحب کا انڈیا میں ایک دربار پر دس کروڑ کا اعلان۔۔۔عمران خان کا اپنے ہسپتال کو کروڑوں کا پلاٹ وغیرہ وغیرہ جمعہ کا خطبہ ہوا جمعے کی نماز ہوئی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد امام صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مصر اور شام کے مسلمانوں کے دعا منگوائی۔اس دعا میں امام صاحب نے سرعام مصر کے جنرل سیسی کو کذاب کہا جھوٹا کہا ظالم کہا اور اللہ سے دعا کی اللھم علیک السیسی ۔۔اے اللہ یہ جنرل سیسی اب تیرے ذمے امام کو بالکل علم نہیں ہو گا کہ اس کا وزیر اعظم جو اس کے پیچھے کھڑ اہے اس کا مصر کے معاملے کیا موقف ہے آیا وہ سیسی کے حق میں ہے یا خلاف لیکن امام نے دل سے دعا کروائی۔۔۔اس لمحے وہ امام مجھے امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السیدیس سے بھی زیادہ اچھا لگا کیوں کہ السیدیس صاحب نے شاہی فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جنرل سیسی کو حق اور مصر کے شہدا کو بھٹکے ہوئے لوگ کہا تھا خیرنماز جمعے کے بعد باجماعت دو رکعات صلات حاجات پڑھائی گئی جس کا مقصد مصر میں مسلمانوں کی مدد کی دعا کرنا تھا۔۔۔کہ اللہ مصر کے مسلمانوں کی حاجت پوری فرمائے۔ نماز حاجات کے بعد اب مہذب قوموں کا طریقہ دیکھیں کوئی بھی ٹوٹ کر لپک کر وزیر اعظم کی جانب نہیں آیا ،۔۔۔جس راستے سے وزیر اعظم صاحب نے گزرنا تھا وہاں سب قطار میں کھڑے ہوئے اور وزیر اعظم صاحب سب سے ہاتھ ملاتے گئے۔۔۔میری باری آئی میں نے ہاتھ ملایا اور وہ بات کہی جو میں پچھلے کئی منٹوں سے سوچ رہا تھا اور میرے دل میں تھی "پاکستان کو آپ جیسے عوامی لیڈر کی ضرورت ہے۔" وزیر اعظم نے ایک قہقہہ لگایا اور ان شاء اللہ ،الحمد للہ کہہ کر میرے کندھے پر تھپکی دی اور آگے کی جانب بڑھ گئے۔۔ میں وہاں کھڑا سوچتا رہا میں تو اس ملک کا باسی بھی نہیں پھر بھی وزیر اعظم صاحب نے میرا کندھا تھپکا مجھ سے ہاتھ ملایا۔۔۔مسجد میں میرے ساتھ نما زپڑھی دو سال قبل رمضان میں محترم یوسف رضا گیلانی صاحب کا جمعۃ الوداع فیصل مسجد میں پڑھنے کا موڈ ہوا تھا اس دن اسلام آباد پولیس نے مسجد جانے والی سڑک د وگھنٹے پہلے بند کر دی تھی اور صڑف ایک شخص یوسف رضا گیلانی کی خاطر اس دن کم و بیش تین ہزار لوگوں کا جمعہ رہ گیا تھا کیا اس شخص کا جمعہ اتنا قیمتی تھا؟ یہ بھی تو لوگ ہیں جو ایک طاقتور ترقی یافتہ ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن عوام میں بیٹھتے ہیں جمعہ پڑھتے ہیں کوئی سڑک نہیں روکتا کوئی مسجدیں بند نہیں کرتا وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اچھے ہیں ان کے حکمران اچھے ہیں ان کے حکمرانوں نے عوام کے ساتھ کبھی غلط نہیں کیا اسی لیے ان کے حکمرانوں کے دل میں میں موت کا خوف نہیں ہمارے ظالم حکمران جتنا موت سے ڈرتے ہیں جتنے خود پر پہرے لگاتے ہیں اتنے ہی بری طرح قتل کیے جاتے ہیں اور "شہید" کہلواتے ہیں حالانکہ گندی سیاست اور اقتدار کے کھیل میں مرنے والا شہید نہیں ہوتا خیر تحریر بہت لمبی ہو گئی تصویر ملاحظہ فرمائیں وزیر اعظم صاحب کی اور بتاتا چلوں وزیر اعظم نجبیب رزاق سے یہ میری تیسری ملاقات تھی یہ دوسرا جمعہ تھا جو میں نے ان کے ساتھ پڑھا
Posted on: Sun, 01 Sep 2013 11:10:51 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015