بہت برس بیت چکے جب یہ ایک دوست مشتاق - TopicsExpress



          

بہت برس بیت چکے جب یہ ایک دوست مشتاق بٹ رِزق کی تلاش میں امریکہ منتقل ہوگیا، بٹ صاحب کا تن و توش اس حقیقت کو نمایاں کرتا تھا کہ موصوف واقعی کشمیری ہیں اور وہ کسی بھی ایسے ریستوران کا ’’دیوالیہ‘‘ نکال سکتے ہیں جہاں بوفے ڈنر کا بندوبست ہو کہ وہ نہایت آسانی سے بوفے کی میز کو لمحوں میں خزاں سے ’’دوچار‘‘ کر سکتے ہیں۔ ایک بار ہم ان زمانوں کے ایک جگری دوست کے ہاں ’’موج میلے‘‘ کے لئے مدعو تھے اور یہ ہرشخص کی ’’صوابدید‘‘ پر تھا کہ وہ پوری شب موج کرتا رہے اور میلے کی جانب ’’رجوع‘‘ نہ کرے، کچھ لوگ میلے میں یعنی کھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور ان میں بٹ صاحب سرِفہرست تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ متعدد ہانڈیوں وغیرہ کو خالی کر کے، انہیں چاٹ کر چمکا چکے اور روٹیوں کا ذخیرہ بھی ختم ہونے کو آیا تو انہوں نے میزبان دوست سے ’’مزید‘‘ خوراک کا مطالبہ کیا۔ میزبان دوست پہلے سے ہی ’’بھنائے‘‘ بیٹھے تھے، وہ اس تشویش میں مبتلا تھے کہ دیگر مہمانوں کی مدارات کیسے کریں گے؟ تو انہوں نے کہا، ’’بٹ جی! اب تو کچھ باقی نہیں بچا صبح تک صبرکریں‘‘۔ بٹ صاحب نے ایک ناآسودہ سی آہ بھر کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے ’’یار! کچھ نہ کچھ تو بچا ہو گا؟‘‘۔ اس پر میزبان نے شاید اپنے سر کے بال نوچے اور کہا، ’’ہاں! دو تین ملازموں کا کھانا الگ رکھا ہے، وہ آپ کی خدمت میں پیش کر دوں؟‘‘۔ اس پر بٹ صاحب اٹھے اور بولے ’’تم کیوں تکلیف کرتے ہو، میں خود ان سے جا کر درخواست کرتا ہوں‘‘۔ بٹ صاحب نے پہلے تو ملازموں کو خوب انعام و اکرام سے نوازا اور پھر کہنے لگے ’’آپ کے حصے کا کھانا اگر تھوڑا سا مل جائے تو مشکور رہوں گا‘‘۔ ایک بار کسی شادی میں ہم دونوں مدعو تھے، میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کیا کہ بٹ صاحب نے بٹیروں کی ایک پوری ڈش اور درجن بھر سیخ کباب تقریباً آٹھ نانوں کے ساتھ نوش کرنے کے بعد نہایت مایوسی سے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا ’’یار تارڑ! میں بوڑھا ہورہا ہوں، اب تو بھوک ہی نہیں لگتی‘‘۔ بٹ امریکہ کی ریاست بفلو میں رہائش پذیر ہوا اور ہم اس کا مذاق اڑاتے کہ تم جلال پور جٹاں سے نکلے، جہاں بھینسیں بہت ہوتی ہیں اور امریکہ میں بھی ایک ایسے شہر میں جا بسے جس کا نام ’’بھینس‘‘ ہے یعنی’’بفلو‘‘۔ مشتاق بٹ جب کبھی پاکستان آتا تو ہمیشہ اس کا پہلا فقرہ ہوتا۔’’یارو! مجھ سے باتیں کرو، مجھے بھی باتیں کرنے دو اور خود بھی بولتے چلے جاؤ کہ امریکہ میں مجھ سے کوئی باتیں نہیں کرتا اورنہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ مجھ سے باتیں کرے‘‘۔ ہم ہمیشہ اسے بلیک میل کرتے، اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے نہایت شاندار کھانے پینے کی شرط رکھتے اور وہ ہمیشہ ہمیں خوب کھلاتا پلاتا کہ وہ ایک اپنے تن و توش کے حساب سے فیاض شخص تھا اور پھر ظاہر ہے وہ بے تکان بولتا۔ مشتاق بٹ چند برس پیشتر امریکہ میں مر گیا اور جب ہمیں اس کی موت کی خبر ملی تو اس کے چالیسویں کو بھی بہت دن بیت چکے تھے، ہم اس کا سوگ کیا مناتے۔ ویسے میں نے اس مشتاق بٹ داستان کو رقم کرتے ہوئے بہت مبالغہ کیا ہے کہ وہ اتنا کھاتا نہیں تھا جتنا اس کے دوست چرچا کرتے تھے، لیکن وہ ایک تنہا شخص تھا جس کے ساتھ کوئی باتیں نہیں کرتا تھا۔ جیسے مایا تہذیب کے سونے کے زیوروں ایسا شاندار شخص میرا محسن اور میرا دوست تلمیذ حقانی بھی جب اپنے اکلوتے بیٹے اویس کے پاس مجبوراً اپنا لاہور چھوڑ کر کینیڈا چلا گیا تو وہ بھی ایک تنہا شخص تھا، جس کے ساتھ کوئی باتیں نہیں کرتا تھا، وہ اپنے بینکر بیٹے کے شاندار گھر اور اپنی خدمت گذار بہو کے باوجود کھوج میں رہتا کہ ٹورنٹو میں کوئی لاہور کا رہنے والا ہے؟، اگر ہے تو کہاں ہے؟۔ اور وہ اس کے پاس پہنچ کر نہایت لجاجت سے کہتا۔ ’’پلیز! مجھ سے باتیں کریں، لاہور کی باتیں کریں‘‘۔ بالآخر اس کا فرمانبردار بیٹا اپنی ملازمت ترک کر کے اسے لاہور واپس لا رہا تھا کہ جہاز میں اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور روسی پائلٹ نے جہاز کو الاسکا کے شہر اینکرایج میں اتار دیا، میں الاسکا کے اس شہر میں خاص طور پر اس ہسپتال کے قریب گیا، جہاں وہ زیر علاج تھا۔ وہ پاکستان لوٹا تو زیادہ نہ جیا، دنوں میں مر گیا۔ بے شک پاکستان لمحہ موجود میں ایک بیکار اور بے ایمان ریاست ہے، لیکن وطن محض سہولتوں اور آسائشوں کا نام نہیں ہے، یہ اس مٹی کی خوشبو کا نام ہے جس میں سے ہم سب گُل بُوٹے پھُوٹے، اگر ہم اس سے بچھڑ کر دیارِ غیر میں جاتے ہیں، تو اس دیار کی مٹی کی نہ تو خوشبو ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ہم سے باتیں کرتی ہے، ہمکلام ہوتی ہے۔ ہم ایک سناٹے میں بیشک ایک پُرآسائش زندگی گذارتے ہیں، لیکن کوئی بھی ہم سے بات نہیں کرتا۔ یہ جو برس گذرا ہے اسی برس ڈیٹرائٹ کے موٹروں کے شہر میں دو تین روز بسر کر کے، جہاں مجھے خصوصی طور پر ایک تقریب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ تو میں وہاں سے فارغ ہو کر فلوریڈا کے شہر آرلینڈ میں اپنی بیٹی ڈاکٹر عینی کے ہاں گیا۔ میں ہر سویر جوگرز چڑھا کر اپنی عادت سے مجبور سیر کے لئے نکل جاتا، کیا آپ یقین کریں گے کہ کم از کم پندرہ روز اس سیر کے دوران نہ تو میں نے کسی سے کلام کیا اور نہ ہی کسی نے مجھ سے کچھ بھی کہا، میں ایک اجنبی سناٹے میں چلتا رہا۔ بے شک نوجوان لوگوں کو اس دنیا میں بکھر جانا چاہیے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے بہتر روزگار کی خاطر امریکہ، یورپ میں پھیل جانا چاہیے، لیکن میری عمر کے لوگوں کو ہرگز اپنے پاکستان سے بچھڑنا نہیں چاہیے کہ وہاں کوئی بھی ہم سے باتیں نہ کرے گا، ہمارا حال احوال نہ پوچھے گا، وہاں سوائے ایک اجنبی سناٹے کے اور کوئی منتظر نہیں، بے شک یہاں بجلی کی نبض رُکتی ہے، گیس کا دَم رُکتا ہے، دُھول سے دَم رُکنے کو آتا ہے اور بے ایمانی اور بے حِسی کا راج ہے، لیکن یہاں سناٹا نہیں ہے، ہر دوسرا شخص جو ملتا ہے کہتا ہے، ’’سوہنیو! ہور کی حال اے؟‘‘۔ مستنصر حسین تارڑ؛ اقتباس از کالم جائیو نہ بدلیں Mai Pakistani Hoon ٭٭کائنات٭٭
Posted on: Tue, 01 Oct 2013 17:35:52 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015