نوٹ: اس مضمون کو پڑھنے سے پہلے قاری - TopicsExpress



          

نوٹ: اس مضمون کو پڑھنے سے پہلے قاری اس بات کو ذہن نشین کرلے کہ اسلام فرد واحد یا مجموعہ افراد کے خیالات کا نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دین کا نام ہے۔ اور اسے قرآن و احادیث صحیحہ کے ذریعے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے ماننے والے بندوں کا نام صرف مسلم رکھا ہے۔ اور ایک مسلم کے لیے صرف اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہی راہ ہدایت ہے۔ اور اس دین میں کسی بھی انسان کو کسی اظافے یا کمی یا کسی بھی قسم کے رد و بدل کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔ پندرہ شعبا ن کی آمد آمد ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس تہوار کو خوب مذہبی جوش خروش سے منانے کے لئےکی جانے والی تیاریوں میں اضافہ ہوتا چلا جائےگا۔ آج امت میں موجود تقریباً تمام سنی اور شیعہ فرقے اسے ایک برکتوں اور رحمتوں والی رات سمجھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی سال بھر کے تمام فیصلے اسی رات فرماتا ہے لہذا اس رات کو خاص طور پر عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے چراغاںو آتش بازی ہوتے ہیں اور اگلے دن روزہ رکھا جاتا ہے، علی الصبح وفات پا چکے عزیز و اقارب کی قبروں پر جا کر پھول چڑھائے جاتے ہیں، پھر شام میں نئے نئے پکوان اور خاص طور پر حلوہ پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ الغرض جیسے جیسے امت مسلمہ میں دین کو خود سمجھنے کا رحجان کم ہوتا گیا ویسے ویسے اس رات اور اس سے منسوب غلط عقائد اور رسومات کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اگر ہم قران پر نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی رحمتوں اور برکتوں والی رات کا ذکر ہے یعنی لیلتہ القدر یا شبِ قدر جسکے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈو۔ حم وَالْكِتَابِ الْمُبِين إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ روشن کتاب کی قسم ہے۔ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔ سارے کام جو حکمت پر مبنی ہیں اسی رات تصفیہ پاتے ہیں۔ سورة الدخان آیات ۱۔۳ سورة الدخان کی آیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اس رات کا ذکر ہو رہا ہے جس میں اللہ نے کتاب المبین یعنی قرآنِ حکیم نازل فرمایا اور قرآن میں ہی سورة القدر کی ذیل کی آیات اس بات کی وضاحت کر دیتی ہیں۔ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔ سورة القدر، آیت ۱ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ سورة القدر آیت ٤ ان تمام آیات سے ایک ہی بات کی بار بار تصدیق ہوتی ہے کہ قرآن کو رمضان کے مہینے میں شبِ قدر کی رات کو اتارا گیا، یہی ایک برکتوں اور فضیلتوں والی رات ہے اور اسکے علاوہ قرآن میں شبِ برأت یا کسی اور رات کی فضیلت کا ذکر نہیں ملتا۔ شبِ برأت یا شعبان کےمہینے یا کسی بھی تاریخ یا مہینے کا کوئی ذکر نہیں بس صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا کیونکہ جبریل امین وحی لے کر آئے جس میں قبرستان جاکر دعا کرنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن شب برأت کے شوقین فرقے اس واقعے کی ایک روایت سنن ترمذی سے لاکر شب برأت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ اس میں نصف شعبان کا ذکر ہے حالانکہ یہ ایسی روایت ہے جس پر ناصرف محدثین نے جرح کی ہے بلکہ خود امام ترمذی نے یہ حدیث لا کر اس پر تبصرہ کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہمیں کسی اور صحیح روایت میں ایسا کوئی ذکر بھی نہیں ملتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کسی خاص دن یا رات قبرستان جا کر دعا فرماتے۔ احادیث صحیحہ سے تو بس اتنا ثابت ہے کے وفات شدگان نے اگر دینِ حق پر جان دی تو انکے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح قبرستان جانے سے متعلق بھی یہی ملتا ہے کہ یہ اجازت اس لئے دی گئی تاکہ مسلمان کو اپنی آخرت یاد رہے اور دنیا سے بے رغبتی کا احساس ہو اور اس اسکے لئے بھی کوئی خاص دن یا رات مختص نہیں کئے گئے۔ اور یہاں حال یہ ہے کہ ایک پورا کا پورا تہوار ایجاد کر لیا گیا ہے۔ اس تہوار پر روزہ رکھنے کے حق میں جو حدیث توجیح کے طور پرپیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امت کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کے روز اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس حدیث کا شبِ برأت سے کیا تعلق؟ حدیث میں دو دنوں کا ذکر ہے اور وہ بھی ہر ہفتے اور یہاں بات سال کے ایک خاص دن کی ہے جس کا کوئی ثبوت احادیثِ مبارکہ میں نہیں ملتا۔ ہم یہ حدیث ذیل میں کاپی کر رہے ہیں۔ آخر میں بس اتنا ہی کہ اللہ تعالی ہمیں شب برأت اور اس جیسی تمام بدعات سے دور رہنے کی اور اپنے دین کو سمجھ کر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (کیونکہ یہ سب چیزیں اسلام کا حصہ نہیں ہیں، اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اکرام ؓ، تابعین، اور تابعین نے اس رات کو منایا، اور اگر اس رات کی اتنی ہی فضیلت تھی تو پھر ان قول و عمل کے پکّے مسلمین نے اس رات کو کیوں چھوڑ دیا؟)۔ مسلمان کا کام صرف اپنے لئے ثواب یا جنت کمانا نہیں بلکہ دوسروں کو برائی سے روکنا بھی مسلمان کا فرض ہے تاکہ اللہ کے خالص دین کو ایسی تمام خرافات سے پاک کر کے تمام انسانیت تک پہنچایا جائے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کا سامان پیدا ہو سکے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا۔ اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔سورة التحریم ٦ فی امان اللہ۔
Posted on: Mon, 24 Jun 2013 13:15:37 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015