پاکستانی طالبان اب اور کس زبان میں - TopicsExpress



          

پاکستانی طالبان اب اور کس زبان میں عمران خان کو سمجھائیں کہ انہیں کسی قسم کے مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں؟ اب تو وہ بھی سوچنے لگے ہونگے کہ یہ کیسا شخص ہے جس کے پلے کچھ پڑتا ہی نہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان سے شاید ہی کسی معاملے پر اتنی آراء آئیں ہوں جتنی عمران خان کی اس تجویز پر کہ طالبان کو پشاور میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جانی چاہئیے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ ہر ملک کے سیاسی رہنماؤں کے بیانات پر لوگ اکثر زوروشور سے رائے دیتے ہیں۔ لیکن اس بار ایک چیز قدرے مختلف تھی۔ ان کی اس رائے پر حیرت، پریشانی، مایوسی، دکھ اور غصے کا اظہار کرنے والے کسی ایک طبقے یا سیاسی سوچ رکھنے والے نہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر قسم کی سیاسی سوچ رکھنے والے پاکستانی تھے۔ سوائے ان کے حمایتیوں کے اس گروہ کے جس نے سوشل میڈیا پر ان کی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو مادرزاد گالیاں دینا اپنا مقصد حیات بنایا ہوا ہے، کم ہی ایسے تھے جن کو ان کی اس تجویز سے مایوسی نہ ہوئی ہو۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسے یا تو ایک غیرسنجیدہ بیان سمجھ کر درگزر کر دیا یا اس کا تمسخر اڑایا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان بچگانہ ہے جبکہ اے این پی کے سابق وزیر میاں افتخار کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے طالبان کو اپنے دفتر کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن تمام طبقات کی جانب سے اس تجویز کی مخالفت اس قدر شدید تھی کہ خود تحریک انصاف کو اس سے لاتعلق ہونا پڑا اور پارٹی کے سینئیر رہنما اسد عمر نے اسے خان صاحب کی ذاتی رائے کہا۔ کئی برس سے جاری پاکستانی طالبان کی خونریز کارروائیوں نے پوری دنیا کو قائل کر دیا ہے کہ وہ جنگی معیشت پر پلنے والی ایک میلیشیا ہے جس کے لیے امن کا مطلب موت ہے۔ ان کا ایک بڑا حصہ چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ گروہوں پر مشتمل ہے جنہوں نے قتل و غارتگری کے کاروبار کو ایک صنعت بنا لیا ہے۔ ان کی مذہبی انتہاپسندی اور رجعت پسندی عوامی سطح پر غیر مقبول اور ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کی اقلیتوں سے کہیں زیادہ پاکستان کے مسلمان ان سے خوفزدہ وخائف ہیں۔ ان کی بقا صرف اس میں ہے کہ وہ لاقانونیت کے سہارے خاک و خون کا یہ کھیل جاری رکھیں کیونکہ اس کے علاوہ نا تو دنیا کو دینے کے لیے ان کے پاس کچھ ہے اور نہ ہی ان کی پرتشدد سوچ کے لیے دنیا میں کوئی نرم گوشہ۔ ان کے لیے امن کی بات کرنا خود اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ عمران خان یا کوئی اور ان سے کیا بات کرے گا؟ فرض کر لیں کہ دنیا کی یہ رائے بالکل غلط ہے اور پاکستانی طالبان دراصل انتہائی مذہبی لوگ ہیں جو درحقیقت ایک مخصوص مذہبی طرز کی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے اور وہ اس کے لیے جان دینے اور جان لینے پر تیار ہیں۔ ایسے میں عمران خان کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو وہ طالبان کو منائیں کہ پاکستان کو ایسی ریاست میں تبدیل کرنا ناممکن ہے لہٰذا وہ اپنے رب سے معافی مانگ لیں کہ وہ یہ بنیادی مذہبی فریضہ انجام نا دے پائے اور روز محشر وہ جنت جس کی خاطر انہوں نے ہزارہا بےگناہوں کو جہنم رسید کیا اب ان کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر عمران خان کو پاکستانی عوام کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ وہ طالبانیت کو اسلام سمجھتے ہوئے قانون اور آئین کی بات چھوڑیں اور خود کو یہ سمجھتے ہوئے ملا عمر کے حوالے کر دیں کہ یہی حکم الٰہی ہے اور اسی میں امن و شانتی ہے۔ شاید سب کے لیے بہتر ہو کہ پاکستانی طالبان سے آئیندہ مذاکرات کی بات کرنے سے قبل عمران خان قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ مذاکرات کے ذریعے وہ ان میں سے کونسے راستے پر جانا چاہتے ہیں۔ کم از کم سب پر یہ تو واضح ہو جائے گا کہ جب تک قیادت عمران خان کے ہاتھ میں ہے، ان دو راستوں کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں۔
Posted on: Fri, 04 Oct 2013 18:54:48 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015