کاشغر گوادر ٹرین۔۔۔ ایک سراب مستنصر - TopicsExpress



          

کاشغر گوادر ٹرین۔۔۔ ایک سراب مستنصر حسین تارڑ ان دنوں بلٹ ٹرین کا بہت چرچا ہے کہ ہم لاہور سے کراچی تک بُلٹ ٹرین چلا دیں گے۔۔۔ بھئی کیسے چلا دیں گے ہمیں بھی تو کچھ علم ہو۔۔۔ کیا یہ پرانے ریلوے ٹریک پر چلائی جائے گی یا اس کے لئے ایک نیا ٹریک بچھایا جائے گا۔۔۔ پرانے ٹریک کا تو یہ حال ہے کہ اس پر ڈنکی ٹرین نہیں چل سکتی تو بُلٹ ٹرین کہاں چلے گی اور دوسری جانب پچھلے چھیاسٹھ برس میں ہم نے کوئی نیا ٹریک تو بچھایا نہیں تو اب دوچار برسوں میں کیسے بچھا دیا جائے گا ۔۔۔ ویسے تو دہشت گردی کی بُلٹ ٹرین ایسی ہے جس کے لئے کسی ٹریک کی ضرورت نہیں، ایک مرتبہ اسے چالو کر دیں یہ نمازیوں کو، مسجدوں کو، فوجیوں اور سکول کی بچیوں کو روندتی چلی جائے گی۔۔۔ اور جب آپ اسے مذاکرات کی پیشکش کریں گے تو وہ احتیاطً پاک فوج کے ایک جنرل کو ہلاک کر دے گی۔۔۔ اور اس پر جب جنرل کیانی بجا طور پر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم ان کے قاتلوں کو ضرور سزا دیں گے تو اس پر سب سے دلچسپ اور ایمان افروز بیان ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کی جانب سے آتا ہے کہ جنرل کیانی کو سلالہ اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا کچھ دکھ نہیں ہوتا اور انہوں نے ایک جنرل مار دیا ہے تو بہت دکھ ہوا ہے۔ جیسے وہ جنرل ایک پاکستانی مسلمان جنرل نہ ہو۔ ایک یہودی اسرائیلی جنرل ہو۔۔۔ سبحان اللہ ہمارے بھی ہیں قہرماں کیسے کیسے۔۔۔ اب آپ جان گئے ہوں گے کہ بُلٹ ٹرین جو دہشت کی ہے اس کے انجن میں کوئلہ کون جھونکتا ہے۔ ہم کوئے یار سے نکلتے ہیں تو راستے میں کسی مقام پر نہیں ٹھہرتے سیدھے سُوئے دار جاتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن بھائیں بھائیں کر رہے ہیں، میرے ایک ریلوائی دوست سعید بٹ کا کہنا ہے کہ تارڑ صاحب عوام کا پاکستان ریلوے پر اعتماد اٹھ گیا ہے، کوئی ٹرین وقت پر روانہ نہیں ہوتی، ہو جائے تو راستے میں ڈیزل ختم ہو جاتا ہے بلکہ ایک وقوعہ یہ بھی ہوا انجن ڈرائیور مسافروں سے معذرت کر کے بازار سے ڈیزل خریدنے چلے گئے۔ مجھے ریلوے سٹیشن کی ویرانی سے باقی صدیقی کا وہ قطعہ یاد آ جاتا ہے کہ: گڈی لنگ گئی تے باقی رہ گئے ۔۔۔شاں شاں کر دے کَن تے بھاں بھاں کردا ٹیشن! تو آپ بُلٹ ٹرین چلانے کے جھانسے دینے کی بجائے موجود ریلوے سسٹم کی اصلاح کیوں نہیں کرتے، ریلوے سٹیشن جو بھائیں بھائیں کر رہے ہیں انہیں آباد کیوں نہیں کرتے۔ صرف اس لئے کہ کسی بھی محکمے کو پھر سے رواں کرنے اور اسے مستحکم بنانے میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔۔۔ اور اس کا کچھ تذکرہ بھی زیادہ نہیں ہوتا جبکہ ایک میگا پروجیکٹ کی دھوم پڑ جاتی ہے کہ دھوم مچا لے دھوم اور ہر جانب سے آپ کی پارٹی کے نکمے داد کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں کہ واہ جی میاں صاحب آپ تو اس عہد کے شیر شاہ سوری ہیں جنہوں نے موٹروے تعمیر کر دی۔۔۔ بلکہ شیر شاہ سوری تو یونہی واجبی قسم کا شیر تھا جبکہ آپ کی پارٹی کا نشان ہی شیر ہے۔۔۔ اور اب بُلٹ ٹرین کے اعلان کے بعد بھی اسی نوعیت کے چند بیان آئے ہیں کہ چین جاپان بھی حیران رہ جائیں گے جب ہماری بُلٹ ٹرین چھک چھک کرتی بس دوچار گھنٹوں میں لاہور سے کراچی پہنچ جائے گی بشرطیکہ راستے میں تخریب پسند عناصر نے ٹریک نہ اکھاڑ دیا ہو۔۔۔ اور ٹرین کے انجن کا ڈیزل ختم نہ ہو گیا ہو تو۔ یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف نے موٹروے تعمیر کر کے واقعی ایک کارنامہ سرانجام دیا تھا اور میں تو ازل سے مسافر ہوں میں ان کا شکرگزار ہوا تھاکہ انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک کی مسافتیں آسان کر دیں۔۔۔ اور جو بہت قنوطی لوگ تھے ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ موٹروے پر جتنی رقم خرچ ہوئی اگر نہ خرچ کی جاتی تو ویسے بھی ادھر ادھر خردبُرد ہو جانی تھی تو کم از کم یہ تعمیر تو ہو گئی۔۔۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ جس روز موٹروے کا افتتاح ہوا اس روز میں پاکستان ٹیلی ویژن کی سالگرہ کے موقع پر ایک مارننگ شو کی میزبانی کر رہا تھا۔۔۔ حکومت وقت کی خوشنودی حاصل کرنے کے خواہش مند صحافی، اداکار، میزبان اور نیوزکاسٹر پی ٹی وی کی انتظامیہ کی خوشامدیں کر رہے تھے کہ پلیز ہمیں بھی موٹروے کے اختتام کے موقع پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور ان سب نے اپنے بازوؤں پر ’’موٹروے مبارک‘‘ کی پٹیاں باندھ رکھی تھیں، پروڈیوسر صاحب نے مجھ سے بھی درخواست کی کہ آپ بھی ’’موٹروے مبارک‘‘ کا اشتہار اپنے بازو کے ساتھ باندھ لیں تو میں نے معذرت کر لی۔۔۔ اور اس مارننگ شو میں موٹروے کی توصیف میں کیسی کیسی موشگافیاں کی گئیں میں کیوں بیان کروں۔۔۔ اُدھر براہ راست نشریات میں اپنے طارق عزیز اپنا گلا مزید بٹھا رہے تھے اور میاں صاحب کی توصیف میں نہ صرف نعرے لگا رہے تھے بلکہ شعر بھی پڑھ رہے تھے۔۔۔ اور جو کوئی بھی مارننگ شو میں آتا وہ کہتا کہ موٹروے کی تعمیر سے پورے سنٹرل ایشیا کی تجارت کے راستے کھل گئے ہیں، سمرقند، بخارا، تاشقند سے اب قافلے آیا کریں گے یہ ایک نئی سلک روڈ پر جائے گی۔ ملک خوشحالی اور شادمانی سے سیراب ہو جائے گا۔ میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ قافلے سمرقند اور بخارا سے اگر آ گئے تو لاہور تک آئیں گے اس سے آگے کدھر جائیں گے۔ چیچو کی ملیاں جائیں گے۔ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ یقین کیجئے ان میں سے بیشتر آگاہ ہی نہیں تھے کہ یہ سمرقند اور بخارا ہیں کہاں۔۔۔ اور اب ایک پھل جھڑی چھوڑ دی گئی ہے۔۔۔ اسے آپ ایک چھچھوندر بھی کہہ سکتے ہیں کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے اور یوں ایک مرتبہ پھر صوبہ سنکیانگ اور قزاقستان تاجکستان وغیرہ پاکستان سے منسلک ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جب مجھے چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ کے دورے کی سرکاری دعوت ملی اور اس میں سید مشاہد حسین کے مشورے بھی شامل تھے تو روانگی سے پہلے چینی سفیر کی موجودگی میں ایک شاندار دعوت کے دوران شاہ صاحب نے جہاں مجھے ضرورت سے زیادہ خراج تحسین پیش کیا وہاں انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ چین کی حکومت کاشغر سے گوادر تک ایک ٹرین چلانے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ دعوت کے اختتام پر میں نے سید مشاہد سے پوچھا اور وہ ایک دیرینہ دوست اور خیرخواہ تھے کہ شاہ جی۔۔۔ کاشغر سے درہ خنجراب تک تو وہ ریل کی پٹڑی بچھا دیں گے لیکن اس کے آگے کیا ہو گا تو شاہ جی جو دائمی طور پر ایک مسکراہٹ کے مریض ہیں کہنے لگے ’’تارڑ صاحب۔۔۔ اگر چینی بیجنگ سے تبت کے صدر مقام لاسہ تک ٹرین سے جا سکتے ہیں تو وہ اسے گوادر تک بھی لے جائیں گے‘‘۔۔۔ بعد ازاں میں نے کاشغر سے درہ خنجراب تک سفر کیا۔۔۔ اور وہاں میدانی علاقہ تھا، اور ایک شاہراہ بامیر کی برفوں کے اندر تک چلی جا رہی تھی تو ان خطوں میں ریل کی پٹڑی بچھانا تو زیادہ دشوار نہ تھا لیکن درہ خنجراب کے پار برف کے انبار تھے، قراقرم کے پُرپیچ برفانی بلندیوں کے سلسلے تھے تو ان کے اندر ایک ٹرین کی پٹڑی بچھانا مجھے تو محال لگتا ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا کاشغر کبھی گوادر سے ایک چھک چھک کرتی ٹرین سے منسلک ہو سکتا ہے تو میں انگریزی محاورے کے مطابق یہی کہوں گا کہ۔۔۔ میری زندگی میں تو نہیں۔۔۔ ہاں اگر میں ڈیڑھ سو برس تک زندہ رہوں تو شاید! Contributed By : Jamil Abbasi.
Posted on: Wed, 02 Oct 2013 09:41:28 +0000

Trending Topics



Recently Viewed Topics




© 2015